بنگلہ دیش میں طلبا کے شدید دباؤ کے بعد چیف جسٹس، مرکزی بینک کے گورنر، ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر چار گورنرز نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے ہیں۔
وزارت قانون کے مشیر آصف نذرال نے فیس بک پر ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا کہ بنگلہ دیش کے چیف جسٹس عبید الحسن نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب طلبا نے انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ کا گھیراؤ، طلبا کے الٹی میٹم کے بعد چیف جسٹس عبید الحسن مستعفی
بنگلہ دیش کی وزارت خزانہ کے مشیر صالح الدین احمد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بنگلہ دیش بینک کے گورنر عبدالرؤف تعلقدار نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے لیکن عہدے کی اہمیت کے پیش نظر ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا ہے۔
اس سے چند روز قبل 4 ڈپٹی گورنروں کو اس وقت استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا جب تقریباً 300 سے 400 بینک عہدیداروں نے اعلیٰ عہدیدارکی کرپشن کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش میں انقلابی تبدیلی : بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پروپیگنڈے کا پول کھول دیا
ادھر ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اے ایس ایم مسعود کمال نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ یونیورسٹی جولائی میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے خلاف ہونے والے پر تشدد مظاہروں کا مرکز بنی رہی ہے جس کے بعد حسینہ واجد کو ہٹانے کی مہم شروع ہو گئی تھی۔
نئی نگران حکومت کے مشیر آصف نذرل نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں۔ انہوں نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ کسی بھی عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
واضح رہے کہ سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد ملک میں پر تشدد مظاہروں جن میں 4 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے، کے بعد پیر کو عہدے سے استعفیٰ دے کر بھارت چلی گئی تھیں۔
ان کی روانگی کے بعد سے ملک میں ایک نئے پولیس چیف کی تقرری بھی دیکھنے میں آئی ہے جس میں ٹیکنیکل انٹیلی جنس مانیٹرنگ ایجنسی کا نیا سربراہ اور فوج کے سینیئر افسران کی تقرریاں اور تبادلے بھی شامل ہیں۔