ناران وادی کاغان کا سب سے زیادہ حسین اور دلفریب مقام ہے جو مانسہرہ سے 122کلو میٹر دور ہے، کاغان سے ناران کی دوری صرف 23 کلومیٹر ہے، یہ سطح سمندر سے 7 ہزار 904 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
ناران سے 10کلومیٹر دور سطح سمندر سے 10 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع پیالہ نما جھیل ’سیف الملوک‘ کے دلفریب نظارے لوگوں کے دل موہ لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کاغان: مہانڈری پل ہر طرح کی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا
شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کے عشق کی داستان بھی یہاں ہی پروان چڑھی ایڈونچز بھرے جیپ کے ایک گھنٹے کے سفر کے بعد پہاڑوں میں گھری ہو ئی دیو مالائی جھیل کے نیلے پانی اور ارد گرد کے خوش کن مناظر وہاں پر جانے والے سیاحوں کو اپنے سحر میں جھکڑ لیتے ہیں۔
پاکستان ایسے جغرافیائی خدو خال کا حامل ہے، جو سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے پاکستان کے بلند ترین پہاڑوں کے درمیان پھیلی یہ خوبصورت وادیاں سیاحت کے دالدادہ لوگوں کے لیے اپنے دامن میں بہت کچھ چھپائے ہوئے ہیں۔
ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش جیسے طلسمی پہاڑی سلسلے کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں بلند و بالا برف پو ش پہاڑ اور ان پہاڑوں کے قدموں میں بچھی گلیشیائی جھیلیں، گنگناتی آبشاریں ، گھنے جنگلات او ران کے درمیان نیلے پانیوں کی زمرد جھیلیں، اور موسیقی بکھیرتی ندیاں شامل ہیں۔
جھیل ’سیف الملوک‘ کو لاحق خطرات
قدرتی نظاروں سے بھرپور ایشیا کی اس خوبصورت ترین جھیل ’سیف الملوک‘ کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے کیونکہ اس جھیل کا قطر تیزی سے کم ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کاغان: سیلاب کے باعث بڑی تعداد میں سیاح پھنس گئے، ہوٹل مالکان نے مفت رہائش کی پیشکش کردی
ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاحوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کے قدرتی حسن کو تو پہلے ہی خطرات لاحق تھے لیکن تیز بارشوں کے باعث اب اس کا وجود ہی خطرے میں پڑنے لگا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال تیز بارشوں کے نتیجے میں اطراف میں موجود بلند وبالا پہاڑوں سے آنے والے ملبے کی وجہ سے جھیل کا قطر تیزی سے کم ہو رہا ہے، پہاڑوں سے مٹی اور پتھر جھیل میں گررہے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر جھیل سیف الملوک کے اندر جانے والے پہاڑی ملبے کو نہ روکا گیا تو شدید بارشوں کے دوران جھیل کا پانی اوور فلو ہو کر ناران کے قصبے اور بازار کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، کاغان میں بڑھتی ہوئی بھیڑ بھاڑ اور آلودگی کی وجہ سے وہاں کی طلسماتی جھیلوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔
اس منفرد جھیل کو اس بات سے بھی خطرہ ہے کہ جھیل کے ساحل پر کچی آبادی کی طرز پر ایک پورا بازار وجود میں آچکا ہے جس میں بغیر کسی روک ٹوک کے سیاحوں کو مہنگے داموں چیزیں فروخت کی جاتی ہیں۔
سینکڑوں جیپوں کا اڈہ، ڈرائیور سیاحوں سے پیسے بٹورتے ہیں
یہ بھی پڑھیں: وادیِ کاغان کی سیر اور خیالی دنیا
گرمیوں کے موسم میں گنجان آباد شہروں کے تنگ بازاروں سے بھاگ کر آنے والے لوگوں کو یہاں بھی راہِ فرار نہیں ملتی، سینکڑوں جیپوں کا اڈہ قائم ہے، جس نے سڑک پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ناران سے جھیل تک کے9کلومیٹر کے جیب ڈرائیور 2 ہزار روپے لیتے ہیں۔
جھیل لولوسر کو بھی خطرات لاحق
جھیل کے دہانے پر واقع پل کو پار کرنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے، ہر طرف لوگ ایک دوسرے کی تصاویر اور اپنی سیلفیاں لیتے نظر آتے ہیں۔ناران سے 48 کلومیٹر دور واقع وادیِ کاغان کی سب سے بڑی جھیل لولوسر کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔لولوسر کے ساحل پر پکوڑوں اور سموسوں کی عارضی دکانیں اس جھیل کے قدرتی حسن کو زائل کررہے ہیں۔
کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اقدامات
وزیراعلیٰ کے مشیر برائے سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ زاہد چن زیب کا کہنا ہے کہ وادیِ ناران بالخصوص دیومالائی قصوں کی حامل جھیل سیف الملوک پاکستان کا اہم ترین سیاحتی مرکز ہے جس کی بین الاقوامی اہمیت مسلمہ ہے، یہاں پر 4 لاکھ سے زیادہ سیاحوں کا انتظام اور وادی کے بیشتر علاقوں کی صفائی یقینی بنانا کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قابل تحسین کارنامہ ہے۔
مشیر سیاحت کے مطابق کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی بورڈ کو مزید فعال بنایا جائے گا، نقشہ منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہو گی اور تجاوزات کرنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا، کے ڈی اے بورڈ کے قوانین میں ماحول اور عوام دوست آئینی ترامیم لاکر ہوٹل مالکان کو بھی سہولیات اور مراعات فراہم کی جائیں گی۔
زاہد چن زیب نے سیاحوں کی سہولت کے لیے ناران میں ایمبولینس فراہمی، سہوچ پل کی مرمت کے لیے 30 لاکھ فنڈ کی منظوری اور گرلز سکول ناران کے لیے کرایہ کی بلڈنگ فراہمی یا متبادل سکول میں عمارت منتقل کرنے کا اعلان کیا۔
گرین بیلٹ کا قیام
کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زیر اہتمام ناران میں گرین بیلٹ بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں سیاح دریائے کنہار کے کنارے خوشگوار موسم میں ٹھنڈی ہواؤں اور کھلی فضاؤں میں بیٹھ کر وادی ناران کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیاحوں سے خوفزدہ میزبان
ٹورازم اینڈ کلچر اتھارٹی کے جنرل منیجر محمد علی سید نے کہا کہ لامچر، سجاکوٹ، نوری، چجیاں ہری پور، جاروگو سوات، لانچھ دیر اور امبریلا ایبٹ آباد کے آبشاروں کو ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، ایبٹ آباد، ہری پور اور مانسہرہ کے آبشاروں کو جوڑنے کے لیے سیاحتی مقامات، جیپ ٹریک اور سڑکیں تیار کی جا رہی ہیں۔