وفاق کے خلاف خیر پختونخوا کے برباد مورچے کی کہانی

منگل 24 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کی بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر خریدوفروخت کا عمل جاری ہے اور سیکریٹری کی تعیناتی کے عوض 10 تا 12 کروڑ روپے رشوت وصول کی جا رہی ہے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں 10،12 کروڑ روپے رشوت کے عوض سیکرٹریز تعینات ہو رہے ہیں اور عہدوں کی یہ مبینہ فروخت پشاور کے پوش علاقے حیات آباد میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی آشیرباد سے جاری و ساری ہے۔

گورنر خیبر پختونخوا نے عبدالولی خان یونیورسٹی کی زمینوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے بتایا کہ صوبائی حکومت اس زمین کو فروخت کرکے دکھائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ریاستی اثاثے ہیں اور صوبے کے بچوں کے مستقبل سے اس طرح کا کھلواڑ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس کے لیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا پڑا تو دریغ نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: BRT پشاور پراجیکٹ: نجی کمپنی نے سروس بند کرنے کا عندیہ دے دیا

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہیٹرک کر چکی ہے اور صوبے میں متنازعہ انتخابات کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے مرکزی رہنما اور علی امین گنڈاپور وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج کے خلاف خود تحریک انصاف کے کئی رہنما بشمول سابق سینیئر صوبائی وزیر تیمور جھگڑا عدالتوں میں مقدمات سے نمٹ رہے ہیں۔

10 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد صوبہ 3 حوالوں سےتاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے، پہلے نمبر پر امن وامان، دوسرے مرحلے پر معاشی صورتحال اور تیسرے نمبر پر بدانتظامی جیسے مسائل صوبے کو روز بہ روز بربادی کے راستے پر آگے بڑھا رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بدترین کیوں؟

گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا تھا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں خیبر پختونخوا میں بلکہ پورے پاکستان میں مثالی امن قائم تھا۔

اس حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کے سینیئر کرائم رپورٹراور ایک نجی چینل کے بیوروچیف عمران بخاری نے وی نیوز کو بتایا کہ یہ بات قطعی طور پر درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں کئی دہایئوں سے خیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال کو کوور کرتا رہا ہوں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ کیا ہے لیکن اپنی کئی دہائیوں پر محیط صحافتی زندگی میں آرمی پبلک سکول جیسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عالمی سطح پر دہشتگردی کا ریکارڈ واقعہ تھا گویا یوں سمجھ لیں کہ خیبر پختونخوا میں بدامنی کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا تھا۔

عمران بخاری نے کہا کہ وزیراعلیٰ شاید بھول گئے ہیں کہ اس وقت صوبے میں ان کی ہی حکومت تھی۔

صوبے کا گورنر، وزیراعلیٰ اور پولیس سربراہ ایک ہی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب سے علی امین گنڈاپور نے حکومت سنبھالی ہے ڈیرہ اسماعیل خان میں تاریخی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔ پورے صوبے میں امن وامان کے حوالے سے بدترین صورتحال خود ان 3 بڑوں کے ضلعے میں ہے۔ دہشتگردی کے باوجود جب عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت میں اعلیٰ پولیس عہدیدار نشانہ بن رہے تھے۔ ڈی آئی جی ملک سعد، کمانڈنٹ ایف سی صفوت غیور اور ڈی ائی جی عابد خان مارے جا رہے تھے پولیس کا مورال اتنا نہیں گرا تھا اب پولیس خود اپنی حفاظت کے لیے سراپا احتجاج ہے۔

مزید پڑھیے: خیبر پختونخوا کابینہ میں اختلافات: ناراض رہنماؤں نے عمران خان سے کیا شکایات کیں؟

جنوبی اضلاع میں پولیس باقاعدہ دھرنے پر بیٹھ چکی ہے۔ پولیس اہلکار اجتماعات میں اپنے استعفے لہرا رہے ہیں۔ پولیس اور فوج آمنے سامنے ہے۔ صوبہ نہیں ملک کی تاریخ میں یہ سب پہلی بار ہورہا ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں غیرملکیوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شانگلہ میں چینی انجینیئرز پر حملے کے بعد پاکستان اور چین کے مابین تلخیوں تک بات پہنچی۔ سوات جس کو سنہ 2009 کے آپریشن میں مکمل صاف کرکے ایک سیاحتی خطے کے طور پر تحریک انصاف کے حوالے کیا گیا تھا وہاں کے عسکریت پسندوں کو جذبہ خیرسگالی کے طور پر دوبارہ لایا گیا اور اب وہ ایک بار پھر ان علاقوں میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں۔ 10 سے زائد سفارتکاروں پر حملہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

عمران بخاری نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد امن وامان کے حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی سربراہی میں قائم ایپکس کمیٹی کے اب تک صرف 2 اجلاس ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ روزانہ کی بنیادوں پر ایک جنگ سے دوچار ہے اور ایپکس کمیٹی کے صرف 2 اجلاس کے انعقاد سے حکومتی ترجیحات کا پتا چلتا ہے۔

اس صورتحال میں وزیراعلیٰ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ عوامی جرگے کے فیصلوں کے نتیجے میں چیک پوسٹیں ختم کی جارہی ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کی نقل وحرکت بڑھنے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کو طالبان حمایتی جماعت سمجھا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی معاشی بربادی کا ذمہ دار کون؟

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بارہا کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت صوبے کی واجب الادا رقم ادا کرے تاکہ صوبے کے مسائل حل ہو سکیں۔

محکمہ فنانس کے ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا اس وقت ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا مقروض ہے اور ماہ دسمبر تک اس میں سود سمیت 400 ارب روپے سے زیادہ تک کا اضافہ متوقع ہے۔

محکمہ فنانس کے ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ رقم ایشیائی ترقیاتی بینک سے لی گئی ہے۔ بروقت واپسی نہ ہونے اور روپے کی قدر گرنے کے باعث ادائیگی کی رقم بڑھتی جا رہی ہے۔ صوبے کی اس ابتر صورتحال کے باعث ہر ماہ تنخواہوں کی ادائیگی میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔

قومی احتساب بیورو نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اس ادارے نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر بی آر ٹی کرپشن اسکینڈل میں 168 ارب روپے سے زائد رقم بچا لی ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب کے لاہور میٹروبس منصوبے کی کل لاگت 38 ارب روپے تھی جب کہ خیبر پختونخوا کے اسی نوعیت کے تاحال زیرتعمیرمنصوبے میں کرپشن سے 168 ارب روپے بچانے نیب کا دعویٰ سامنے آیا ہے۔

تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے تاحال نامکمل اس منصوبے پر 100 ارب روپے سے زیادہ لگادیے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے مشیربرائے اقتصادی امور مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم کوشش کر رہے ہیں کہ بی آر ٹی کی سالانہ سبسڈی کو 6 ارب سے گھٹا کر 3 ارب روپے تک لایا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ اس برس صوبے میں صحت کارڈ اسکیم کے لیے 7 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق اب تک اس اسکیم پر 88 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

محکمہ صحت کے ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت 19 ارب روپے کی رقم حکومت کے ذمے واجب الادا ہے جو انشورنس کمپنی کو ادا کرنی ہے۔

صوبے کی اقتصادی صورتحال کو قریب سے دیکھنے والے اقتصادی امور کے ماہر عرفان موسیٰ زئی کا ماننا ہے کہ دراصل صوبے میں اس وقت کوئی میگا پروجیکٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سارے عرصے میں ڈیم یا اس طرح کا کوئی پروجیکٹ نہیں لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایسے پروجیکٹ کیے جو مسلسل فنڈز کی طلب رکھتے ہوں جیسے کہ بی ار ٹی جس پر ہمیشہ رقم لگتی رہے گی اور اسی طرح صحت کارڈ اور بلین ٹریز سونامی پروجیکٹ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں 130 ارب روپے کے ایک اور منصوبے ’خیبر پختونخوا سٹی امپروومنٹ پروجیکٹ‘ کا احیا کیا گیا ہے جس کا نام عوام نے اب تک سنا بھی نہیں اور میری معلومات کے مطابق اس کی لاگت 170 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

عرفان موسیٰ زئی کا کہنا ہے کہ اگر قرضوں کی یہی صورتحال رہی تو سنہ 2030 تک یہ صوبہ 2500 ارب روپے کا مقروض ہوجائے گا۔

خیبر پختونخوا میں تاریخی بدانتظامی کب سے؟

تحریک انصاف نے سنہ 2013کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اس صوبے کو مرکز کے خلاف ایک مورچے میں بدل دیا۔ تحریک انصاف کے پہلے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے اپنی ہی کابینہ کے رکن ضیاءاللہ آفریدی کو کرپشن کے خلاف اواز بلند کرنے پر ان پر ہی کرپشن کے چارجز لگا کر جیل بھیج دیا تھا۔

صوبے میں احتساب کمیشن کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے بعد کمیشن کا ہی خاتمہ کردیا گیا۔ صوبے کے سینیئر ترین بیورکریٹ ارباب شہزاد اور اعظم خان کو کام کرنے ہی نہیں دیا۔ کہا جاتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی بنی گالہ سے چلائی جاتی تھی۔

صوبے کے بیورکریٹ یا تو سائیڈ لائن یا پھر صوبہ بدر کیے گئے۔ صوبائی اسمبلی میں اکثریت کے باعث تحریک انصاف نے ایسے ایسے قوانین لاگو کیے کہ جن کے باعث اج بیوروکریسی کو بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اب اس صوبے کو چلائیں کس طرح؟

ایک سینیئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک چونکہ بلدیاتی نظام میں رہ چکے تھے تو وہ صوبے کو ایک یونین کونسل کی طرز پر چلا رہے تھے۔ چونکہ تحریک انصاف کو فنڈز کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ یہ فنڈز پختونخواہ سے حاصل کرتے اور اس کے بدلے میں خود عمران خان پرویز خٹک کے اگے چپ رہتے تھے۔

ریٹائرڈ افسر نے کہا کہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ کے قانون کو ہی دیکھ لیں کہ اربوں روپے پختونخواہ کے فنڈز سے سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ اسپتالوں کی طرح چلایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نوشیروان برکی جو عمران خان کے کزن ہیں ان کو یہ پروجیکٹ دیا گیا لیکن ہم مجبور تھے، ہم فنڈز دیتے اور وہ اسپتالوں میں تعیناتیاں اور بھرتیاں کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوں سمجھیے کہ قومی خزانے پر خود محکمہ صحت کے متوازی ایک نجی محکمہ صحت صوبے میں کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کی کارکردگی یہ رہی کہ لگ بھگ 100 سال قبل یعنی سنہ 1927 میں انگریز کے قائم کردہ صوبے کے سب سے بڑے اسپتال میں ایک بار تو انستھیزیا ناپید ہوگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ 100 برس میں کبھی اس اسپتال میں ایسا ہوا ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے کسی بڑے اسپتال کا وجود اس دوا کے بغیر ناممکن ہے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں امن و امان کے بڑھتے ہوئے مسائل، قصور وار کون؟

گزشتہ برس محکمہ تعلیم کے انڈیپینڈینٹ مانیٹرنگ یونٹ نے یہ انکشاف کرکے کہ صوبے کے 25 اضلاع میں ایک لاکھ 66 ہزار بچے اسکول سے باہر ہوگئے۔ یہ تو سرکاری اعدادوشمار ہیں لیکن آزادنہ ذرائع اس کو کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں لیکن ایک سال میں ڈیڑھ لاکھ بچوں کا تعلیم سے محروم ہونا عالمی سطح پر کسی بڑی خبر سے کم نہیں ہے اور وہ بھی ایک ایسے خطے میں جہاں مسلسل عسکریت پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔

اعلیٰ تعلیم کی حالت یہ ہے کہ 20 سے زائد جامعات مستقل وائس چانسلر سے محروم ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام 10 برس بعد بھی نہیں ہو سکا ہے۔ ایسی حالت میں صوبے کے دوسرے بڑے شہر مردان میں قائم یونیورسٹی کی زمینوں کو بیچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ان جب صوبہ ان بحرانوں کا شکار ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اپنے قائد کی رہائی کے لیے وفاق کے خلاف مورچہ زن ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp