آئی ایم ایف پروگرام اور ہمارا پاکستان

پیر 30 ستمبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو کر معاشی طور پر بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگا۔ یہ وہ سدا بہار نعرہ ہے جو ہر سیاسی جماعت اور ہر حکومت پچھلی کی دہائیوں سے لگاتی آئی ہے۔ نہ جانے یہ کیسا چنگل ہے جس نے وطن عزیز کو ایسا جکڑ رکھا ہے کہ کئی حکمران آئے اور چلے گئے لیکن ہمیں قرضوں سے نجات نہیں مل پائی۔

چاہے موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز ہو، پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف، ان سب نے عوام سے وعدے کیے کہ وہ ملک کو بیرونی قرضوں سے نجات دلائیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرضے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔ عمران خان نے تو حکومت ملنے سے پہلے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دے گا۔ لیکن جیسے ہی حکومت ملی آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کو اپنی حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حالیہ عدالتی بحران

مسلم لیگ ن نے بھی نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں عوام سے کہا کہ انہوں نے اب کشکول توڑ دیا ہے اور ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے، لیکن جیسے ہی دوسری حکومت آئی پتا چلا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیے بغیر گزارا نہیں۔ سوال یہ ہے آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا پیکج لیکر بھی ملکی معیشت درست سمت کی طرف گامزن نہیں ہورہی۔ اور کیا موجودہ 7 ارب کے پیکج سے ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی؟

اس میں کوئی شک نہیں ملک کی جو موجودہ صورتحال ہے، ایسے میں آئی ایم ایف کی طرف سے اس پیکج کا منظور ہونا وقتی طور پر ملکی معیشت کو کچھ سہارا ملے گا۔ آئی ایم ایف سے اس پیکج کے ملنے کے بعد لوگوں کا ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کیا قرض ملنے کے بعد لوگوں کو دو وقت کی روٹی اور روزگار ملنا شروع ہو جائے گا؟ اس سوال کا جواب آپ جتنے بھی ماہرین اقتصادیات سے پوچھیں گے وہ آپ کو ایک ہی جواب دیں گے کہ اس پیکج سے عوام کو کوئی اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے، لیکن کم از کم برائی سے بچ جائیں گے۔ یعنی عوام کو کوئی فوری طور پر ریلیف تو نہیں ملے گا، لیکن جس تیزی سے معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے سارا بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا تھا اس میں کچھ ٹھہراؤ آجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم اور حکومت کی ناکامی

آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والے اس پیکج کے تحت پاکستان کو فوری طور پر 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط مل جائے گی، لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ اصل اور اہم بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے اس پیکج کی منظوری کیساتھ جو ایک اہم بیان دیا ہے وہ پاکستان کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔ آئی ایم ایف نے جو اس پیکج کیساتھ یہ گارنٹی دی ہے کہ پاکستان اگر 3 سال تک اس پروگرام پر چلتا رہا تو یہ ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ ماہرین اقتصادیات اس بیان کو بہت اہم گردان رہے ہیں کیونکہ معاشی طور پر اس بیان سے ملک کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

آئی ایم ایف کی اس گارنٹی سے پاکستان کو اگر کوئی قرض دینے والا ملک/ادارہ یا وہ جو سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا، لیکن اس بات سے خوفزدہ تھا کہ کہیں یہ ملک ڈیفالٹ نہ کر جائے، اب اس گارنٹی سے کم از کم اس کو یہ تسلی مل گئی ہے کہ یہ ملک کم از کم آنے والے 3 سال میں دیوالیہ نہیں ہوگا۔ صرف یہی فائدہ ہی نہیں ڈیفالٹ ہونے کے خدشےکی وجہ سے یہاں کے سرمایہ دار ڈالر خرید کر دھڑا دھڑ بیرون ملک بھجوا رہے تھے کہ اگر پاکستان دیوالیہ ہو جائے تو کم از کم ان کا سرمایہ بیرون ملک محفوظ رہے گا۔ اس گارنٹی سے ملک سے سرمائے کی اڑان رک جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:ن لیگ کے چالاک سیاستدان

لوگ دیوالیہ ہونے کے ڈر سے جو ڈالر خرید کر باہر بھجوا رہے تھے اب یہ سلسلہ اگر رکے گا تو روپے کی قدر بھی مستحکم ہوگی اور زر مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہونے کی بجائے بڑھیں گے۔ اس طرح معیشت جو کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہر گزرتے دن خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی، وہ اب عارضی طور پر ہی سہی لیکن سنبھل جائے گی۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہی مسئلہ رہا ہے کہ عارضی طور پر معیشت کو سنبھالا دینےکی کوشش تو بھرپور ہوتی ہے لیکن لانگ ٹرم کے لیے کوئی دیر پا پالیسی نہیں بناتے۔

پاکستان نے اگر دیگر معاشی قوتوں کی طرح ترقی کرنی ہے تو ان عارضی پالیسیوں کی بجائے لانگ ٹرم پالیسیاں بنانے پر توجہ دی جائے۔ ملک میں ایک میثاق معیشت کی فی الفور ضرورت ہے۔ اگر ارباب اختیار یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی معیشت بہتر ہو تو اس بات کو لازمی قرار دیا جائے کہ چاہے کوئی بھی حکومت آئے وہ معاشی پالیسیوں میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ جس طرح عدالتی اصلاحات لانے کے لیے آئین میں ترمیم کی جارہی ہے معاشی اصلاحات کو بھی آئین کا حصہ بنایا جائے۔ ایک پورا چیپڑ معاشی اصلاحات کے لیے اور بہترین پالیسیوں بارے ہونا چاہیے۔ تاکہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے اسے ان معاشی پالیسیوں میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو۔

یہ بھی پڑھیں:این آر او دینے سے لینے تک کا سفر

دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیوں کا غور سے مطالعہ کریں آپ کو ایک چیز مشترک ملے گی اور وہ ہے معاشی پالیسیوں کا تسلسل۔ سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے تو ان کو یقین دلانا ہوگا کہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو معاشی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ اس سے معاشی طور پر بہتری لانے میں کچھ وقت تو لگ جائے گا لیکن یہ عمل ایک دیرپا اور ٹھوس تبدیلی لائے گا۔ ورنہ ہم اور ہمارے بعد کی بھی شاید کئی نسلیں اسی طرح قرضے لے لے کر ملک چلاتے رہیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp