سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ نئے بینچ میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان کو شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان کی شمولیت سے 5 رکنی لارجر بینچ مکمل ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں لارجر بینچ آج ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاںخیل بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا تھا، مگر جسٹس مصنور علی شاہ کے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کرلیا گیا۔ لارجر بینچ ساڑھے 11 بجے آرٹیکل 63 اے کیس کی سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں:آرٹیکل 63 اے، سپریم کورٹ میں اختلافات کا انجام کیا ہوگا؟
آرٹیکل 63 اے فیصلے پر نظر ثانی کے اثرات کیا ہوں گے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے گزشتہ روز آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔
آرٹیکل 63 کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔
فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح غلط کی، مراد علی شاہ
فروری میں اس صدارتی ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی اور اس کے بعد 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 3، 2 کی اکثریت سے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والا نہ صرف اسمبلی رکنیت سے نااہل ہوگا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔
سابق چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن نے اس فیصلے کی تائید کی۔ جبکہ بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
اختلاف کرنے والے جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی رکن اسمبلی کی نااہلیت کا طریقہ کار پہلے سے پوری جامعیت اور صراحت کے ساتھ وضع کردہ ہے اور اس سے ہٹ کر اگر کوئی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے تو یہ آئین کو دوبارہ سے لکھے جانے کے مترادف ہو گا۔
جب ووٹ ہی شمار نہیں ہو گا تو نااہلی کیسے ہو گی، شہزاد شوکت ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ اگر تبدیل ہو جاتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں جج صاحب نے ایک بہت ہی عجیب و غریب بات لکھی کہ ووٹ شمار نہیں ہو گا اور رکن اسمبلی بھی نااہل ہو جائے گا۔
مزید پڑھیے: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا تنازعات سے بھرپور دور اور ان کے متنازع فیصلے
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب ووٹ ہی شمار نہیں ہوگا تو رکن اسمبلی نااہل کیسے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جج صاحبان ہمارے لیے بہت محترم ہیں اور ہم بھی ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کے خلاف ہیں لیکن عدالت آئین کو از سر نو نہیں لکھ سکتی، یہ مقننہ کا کام ہے۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترامیمی ڈرافٹ میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز بھی ڈالی ہوئی ہے، ہم نے ان سے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس سلسلے میں نظر ثانی درخواست دائر کر رکھی ہے اور اس پر اگر فیصلہ ہو جاتا ہے تو ترمیم کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اگر اس فیصلے کو تبدیل کر دیا جاتا ہے تو اس سے کوئی آسمان نہیں گرے گا بلکہ ایک درستگی ہو گی۔
63 اے پر فیصلے کو ختم کیا گیا تو ہارس ٹریڈنگ کے راستے کھل جائیں گے، سینیٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور ماہر قانون بیرسٹر سید علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اگر نظرثانی میں آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو ریورس کرتی ہے تو اس سے ہارس ٹریڈنگ کے راستے ایک بار پھر سے کھل جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ کرنے پر رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا تھا۔ یہ کلاز موجود تھا لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جاتا تھا۔ اس طرح کئی لوگ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈال کر نااہل ہو جاتے اور دوبارہ سے انتخاب لڑ کر اسمبلی میں پہنچ جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کی احسن اور متنازع روایات
آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس میں سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ آیا ایسے لوگوں کے ووٹ شمار ہوں گے یا نہیں جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔ اس فیصلے پر بہت تنقید ہوئی اور زیادہ تنقید اس پہلو پر ہوئی کہ یہ فیصلہ آئین کو دوبارہ لکھے جانے کے مترادف ہے۔ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ سپریم کورٹ نے آئین کو دوبارہ سے لکھا بلکہ یہ آئین کی تشریح کا معاملہ تھا۔ اب مثال کے طور پر اگر ایک چیز سے منع کیا گیا ہے تو وہ مکمل طور پر منع ہے، آپ اس کو جزوی طور پر روا نہیں رکھ سکتے۔ اگر اس فیصلے کو ریورس کیا گیا تو اس سے اراکین اسمبلی پارٹی لیڈر کی مرضی کے خلاف ووٹ کر کے نااہل تو ہو جائیں گے لیکن پھر سے منتخب ہو جائیں گے جس سے ہارس ٹریڈنگ کی پرانی روایت زندہ ہو جائے گی۔
کیس کا سماعت کے لیے مقرر ہونا بدنیتی ظاہر کرتا ہے؛ امان اللہ کنرانی
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا اس نظر ثانی کو اس وقت سماعت کے لیے مقرر ہونا چاہیے تھا جب وہ ایشو ابھی زندہ تھا۔ اس فیصلے کے ذریعے پنجاب حکومت تبدیل کی گئی اور پھر نظرثانی درخواستیں بھی نہیں سنی گئیں۔ جب اس مقدمے کو سنے جانے کی ضرورت تھی تب یہ سنا جاتا تو مؤثر ہوتا۔ جب ایک جماعت کی حکومت بننی تھی وہ نہیں بنی اور دوسری جماعت کی بن گئی۔ یہ فیصلہ اپنے زہریلے اثرات دکھا چکا ہے لیکن اب اس کا سماعت کے لیے مقرر ہونا بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اے ایس آئی ہو یا پٹواری،برطرفی پر پنشن اور مالی مفادات ختم ہو جاتے ہیں، جج استعفیٰ دیکر سب وصول کرتے رہتے ہیں
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ اس وقت حکومت آئینی ترامیم کرنا چاہ رہی ہے اور اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں۔ اب اگر گزشتہ فیصلے کو ریورس کیا جاتا ہے تو حکومت ووٹ توڑ کے قانون سازی کروا سکے گی جبکہ وہ اراکین اسمبلی نااہل ہو جائیں گے لیکن حکومت کا مقصد پورا ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس مقدمے کے بینیفشری ججز ہوں گے جن کو خیرات میں 3،3 سال دیے جائیں گے۔ امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ قانون سازی اس طریقے سے نہیں بلکہ نیک نیتی سے اور اتفاق رائے سے ہونی چاہیے۔