ملک بھر میں آئینی عدالتوں کے قیام، ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے اور دیگر امور سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کے بعد پیش کردی جائے گی اور بعض حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ ترمیم ممکن بنانے کے لیے حکومت کو مطلوبہ نمبر بھی حاصل ہوچکے ہیں۔
آئینی ترمیم سے متعلق تشکیل کردہ اسپیشل کمیٹی کا اجلاس 16 اکتوبر کوطلب کرلیا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاس 17 اکتوبر کو بلا لیے گئے ہیں جہاں ممکنہ طور پر اس معاملے کو منظوری کے لیے پیش کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم ہمارے مسودے کے مطابق ہوگی ورنہ ہوگی ہی نہیں، مولانا فضل الرحمان
رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ کی سربراہی میں قائم آئینی ترمیم کی اسپیشل کمیٹی میں پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اپنے مجوزہ ترمیمی مسودے پیش کیے جبکہ پی ٹی آئی نے کوئی مسودہ پیش نہیں کیا اور دیگر جماعتوں کے پیش کیے گئے مسودوں پر تفصیلی مشاورت کی تجویز دی جسے مسترد کر دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ آئینی ترمیم پیش کرنے میں بہت تاخیر ہو چکی ہے، یہ ترمیم ایک شخص کے لیے نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کے مفاد میں ہے۔
چیئرمین کمیٹی پہلے ہی ذیلی کمیٹی کو آئینی مسودوں کا جائزہ لے کر حتمی مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کرچکے ہیں اور اب غالب امکان ہے کہ یہ حتمی مسودہ پہلےاسپیشل کمیٹی اپنے 16 اکتوبر کے اجلاس میں منظور کرے گی جس کے بعد وہ وفاقی کابینہ سے منظور ہوگا اور پھر اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ ترمیم منظوری کے لیے پیش کی جائے گی۔
جمیعت علمائے اسلام کے رہنما کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے پیش نظر سیاسی ملاقاتیں جاری ہیں۔ ’ منگل کو بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات ہوئی، بدھ کو لاہور میں ملاقاتیں ہیں، جے یو آئی کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی بھی اس آئینی ترمیم کا حصہ بنے، بیرسٹر گوہر اور حامد خان کے ساتھ گفتگو سے اشارہ ملا ہے کہ وہ شاید ہمارے مسودے کی حمایت کریں۔‘
مزید پڑھیں: بلاول بھٹو نے حکومت کا تیار کردہ آئینی ترمیم کا مسودہ سوشل میڈیا پر شیئر کردیا
کامران مرتضیٰ کا مؤقف ہے کہ تمام جماعتوں کے مابین اتفاق رائے کے بعد ہی آئینی ترمیم پیش کی جائے اور جے یوآئی سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ میں سینیئر جج پر مشتمل ایک آئینی بینچ بنایا جائے جو سپریم کورٹ کے ماتحت ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ الگ سے آئینی عدالت بنانے کی ضرورت نہیں ہے، صوبوں میں بھی آئینی بینچ ہونے چاہییں، اس کے علاوہ ہمارے مسودے میں پارلیمانی کمیٹی کو انتہائی با اختیار بنانے کی تجاویز دی گئی ہیں‘۔
مزید پڑھیں: آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے، بلاول بھٹو
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی کے 336 کے ایوان میں 224 اور سینیٹ کے 96 کے ایوان میں 64 ارکان کی حمایت درکار ہے، جبکہ اس وقت قومی اسمبلی میں اسے 214 اور سینیٹ میں 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مزید 10، 10 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
الیکشن کمیشن اگر مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دیتا تو قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کے بغیر بھی 2 تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور اس کی مجموعی نشستوں کی تعداد 230 ہو جائے گی۔
اگر مخصوص نشستیں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں میں تقسیم نہیں کی جاتیں تو اس صورت میں جمعیت علماء اسلام کی 8 نشستوں اور 2 پی ٹی آئی یا دیگر ارکان کی حمایت سے حکومت مطلوبہ نمبرز حاصل کرتے ہوئے آئینی ترمیم منظور کرانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو سینیٹ میں بھی 2 تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے، اس وقت حکمران اتحاد کو پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 اور 4 آزاد ارکان سمیت مجموعی طور پر 54 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ 2 تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے اسے مزید 10 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اس وقت سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 17، جمیعت علمائے اسلام کے 5، اے این پی کے 3، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، مسلم لیگ ق کا ایک ایک جبکہ ایک آزاد رکن بھی موجود ہے، جن کی مجموعی تعداد 31 بنتی ہے۔
اگر حکومت سینیٹ میں جمعیت علمائے اسلام کے 5 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل بھی کر لیتی ہے تو اسے آئینی ترمیم کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت ہو گی اور 63 اے کے فیصلے کے بعد اپوزیشن کے ارکان میں سے محض 5 کے ووٹوں سے بھی حکومت سینیٹ میں 2 تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:آئینی ترمیم : جے یو آئی کے بغیر حکومت کے نمبر پورے ہونا شرمناک ہوگا، کامران مرتضی
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ 93 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جن کی تعداد سب سے زیادہ تھی، پاکستان مسلم لیگ ن 75 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
متحدہ قومی موومنٹ کو 17، جمعیت علمائے اسلام کو 5 اور مسلم لیگ ق کو 3 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت المسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ایک ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ منتخب ہونے والے آزاد اراکین کی تعداد 9 تھی۔
مزید پڑھیں:سندھ ہائیکورٹ نے مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف درخواست مسترد کردی
قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن لسٹ کے مطابق حکمراں اتحاد میں ن لیگ کے پاس اس وقت 87 جنرل نشستیں، خواتین کی 20 اور 4 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سمیت مجموعی طور پر 111 نشستیں ہیں، دیگر اتحادیوں میں پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی میں 54 جنرل، 13 خواتین اور 2 اقلیتی نشستوں کے ساتھ کل تعداد 69 ہے۔
ایم کیو ایم 5 مخصوص نشستوں کے ساتھ 22، مسلم لیگ ق کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں، استحکام پاکستان پارٹی کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 4 نشستیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔
مزید پڑھیں:آئینی ترمیم جتنی جلدی ہوجائے اتنا بہتر ہے، ایمل ولی خان
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں سے بالترتیب 40 اور 7 نشستیں پہلے سے سیاسی جماعتوں کو الاٹ کردی تھیں کیونکہ اس وقت تک سنی اتحاد کونسل کے کوٹے میں آنے والی 23 نشستوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔ الیکشن کمیشن اب اگر پی ٹی آئی کے کوٹے کی 23 مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیتا ہے تو 14 نشستیں ن لیگ، 6 پیپلز پارٹی جبکہ 3 جمیعت علمائے اسلام کو مل جائیں گی۔