سندھ ہائیکورٹ نے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلا کی جانب سے دائر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف وکلا کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ محمد شفیع صدیقی اور جسٹس جواد اکبر سروانہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔
’جب ترمیم ہوئی ہی نہیں تو کیسے تعین کریں کہ یہ قانون کے مطابق ہے؟‘
دوران سماعت چیف جسٹس محمد شفیع صدیقی نے ریمارکس دیے کہ جب ترمیم ہوئی ہی نہیں تو عدالت کیسے مداخلت کرسکتی ہے، ترمیم سے پہلے کیسے تعین کریں کہ ترمیم قانون کے مطابق ہورہی ہے یا نہیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل ابراہم سیف الدین نے عدالت کو بتایا کہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ اسمبلی میں لایا گیا ہے۔ چیف جسٹس بولے، ’تو آپ درخواست لے کر یہاں آگئے؟ اسمبلی میں 24 کروڑ عوام کے منتخب نمائندے بیٹھے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو نے حکومت کا تیار کردہ آئینی ترمیم کا مسودہ سوشل میڈیا پر شیئر کردیا
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے۔ ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے اثبات میں جواب دی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کے باوجود آپ نے ایسی درخواست دائر کرنے کی جسارت کی، یہ درخواست کیسے قابل سماعت ہے۔
ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے دلائل پیش کیے کہ آئینی ترمیم عوامی حقوق کے خلاف اور عدلیہ پر حملہ ہے، ترمیم سے پہلے مسودہ بار کونسلز اور وکلا تنظیموں کے سامنے لایا جانا چاہیے اور اس پر بحث ہونی چاہئے۔
’کس قانون کے تحت مسودہ بار کونسلز کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیں؟‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت مسودہ بارکونسلز اور وکلا تنظیموں کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیں، 3، 4 سطریں لکھ کر درخواست دائر کردی جاتی ہے، پھر اخبارات میں خبر لگ جاتی ہے، سپریم کورٹ کے 15 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ہم کیسے جاسکتے ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 24 کروڑ عوام کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں۔ بعدازاں، عدالت نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست غلام رحمان کورائی و دیگر کی جانب سے دائر کی گئی تھ۔ درخواست میں درخواست میں سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن ،سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس اور سیکرٹری پارلیمنٹ ہاؤس کو فریق بنایا گی ۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 14 ستمبر کو وفاقی کابینہ نے آئین میں ترمیم کے مسودے کی منظوری دی تھی، آئینی ترمیم کا مسودہ 15 ستمبر کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا جاسکا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے ہماری تجاویز قبول کیں تو مناسب مسودے پر اتفاق ہوجائے گا، مولانا فضل الرحمان
درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر پوری قوم کو اندھیرے میں رکھ کیا گیا ہے، وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ترمیم کا مسودہ تاحال وفاقی کابینہ نے میں پیش نہیں کیا گیا ہے، ترمیم کا مسودہ جو سوشل میڈیا پر موجود ہے اس میں بیشتر شقیں عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وفاقی کابینہ کو مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کرنے سے روکا جائے اور آئینی ترمیم کا مسودہ پبلک کرکے اس پر بحث کے لیے 60 دن کا وقت دیا جائے۔