پاکستان کے کمزور معاشی حالات، بےروزگاری میں اضافے، کاروبار کے مواقع میں کمی کے باعث ہر سال سینکڑوں نوجوان کسی دوسرے ملک کا رخ کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو چونکہ نوجوان اپنا لیڈر مانتے ہیں لہذا ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد نے بیرون ملک سکونت اختیار کر لی۔
وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل کے مطابق بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے رجسٹرڈ ہو کر ملک چھوڑ کر بیرون ملک ملازمت کرنے والوں کا ریکارڈ وزارت کے پاس ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، قومی تشخص خراب کر رہے ہیں؟
عمران خان کے دور حکومت کے بعد اپریل 2022 سے اگست 2024 کے دوران ملک بھر سے 19 لاکھ 25 ہزار سے زائد نوجوانوں نے رجسٹریشن کروائی لیکن صرف 7 ہزار 75 نوجوان اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے بیرون ملک ملازمتیں حاصل کرسکے، سب سے زیادہ نوجوان ملازمت کے لیے جنوبی کوریا گئے۔
ریکارڈ کے مطابق اپریل تا دسمبر 2022 میں 2 ہزار 317 نوجوان ملازمت کے لیے مختلف ممالک گئے، جنوبی کوریا میں 1684، کویت میں 450، سعودی عرب میں 157، قطر میں 15، جاپان میں 6، لیبیا میں 4 اور بحرین میں ایک نوجوان اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے ملازمت کے لیے گیا۔
مزید پڑھیں:سال 2023: کتنے پاکستانیوں نے ملک کو خیرباد کہا؟
سال 2023 میں 2 ہزار 779 نوجوان ملازمت کے لیے مختلف ممالک گئے، جنوبی کوریا میں 1542، کویت میں 872، سعودی عرب میں 315، قطر میں 4، جاپان میں 41 اور بحرین میں 5 نوجوان اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے ملازمت کے لیے گئے۔
رواں سال 2024 کے پہلے 8 ماہ میں 1 ہزار 979 نوجوان ملازمت کے لیے مختلف ممالک گئے، جنوبی کوریا میں 698، کویت میں 1045، سعودی عرب میں 167، قطر میں 9، جاپان میں 53 اور بحرین میں 7 نوجوان اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے ملازمت کے لیے گئے۔
مزید پڑھیں:بہتر روزگار کے متلاشی پاکستانیوں کے لیے خوشخبری، جرمنی اور جاپان کو بڑی افرادی قوت درکار
اس عرصے میں مجموعی طور پر اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے ذریعے 3 ہزار 924 نوجوان ملازمت کے لیے جنوبی کوریا گئے، کویت 2 ہزار 367 نوجوان، سعودی عرب 639، جاپان 100، قطر 28، بحرین 13 جبکہ 4 نوجوانوں نے ملازمت کے لیے لیبیا کا رخ کیا۔
ان اعداد وشمار سے قطع نظر گزشتہ دنوں ملک بھر میں پاسپورٹ کی فراہمی میں تاخیر کی اطلاعات تھیں، پرنٹنگ پیپر نہ ہونے کے باعث ایک ماہ میں ملنے والا پاسپورٹ کئی ماہ کی تاخیر سے مل رہا تھا، بڑی تعداد میں شہریوں کی جانب سے پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواستوں کی وجہ سوشل میڈیا پر تو یہی بتائی جاتی رہی کہ نوجوان بڑی تعداد میں ملک چھوڑرہے ہیں، اس لیے پاسپورٹ کی پرنٹنگ میں استعمال ہونے والا پیپر کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے۔