وفاقی وزیرمنصوبہ بندی و ڈیویلپمنٹ احسن اقبال نے کہا ہے کہ 1999 کے مارشل لا کے بعد ہم نے کبھی افغانستان کی جنگ لڑی، کبھی کچھ اور لڑا، ہم نے ڈالر بھی بڑے کمائے لیکن ان ڈالروں سے کوئی خاطر خواہ ملک کی اپنی صلاحیت نہیں بڑھائی، اس وقت کے حکمران ملک کو بیرونی امداد پر چھوڑ کرچلے گئے۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ڈیویلپمنٹ احسن اقبال نے کہا کہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے ملک کی 73 سالہ تاریخ میں کبھی ملک کو سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کی، ہم نے بہت بار یہ کوشش کی ہے لیکن اتنی ہی بار ہم نے یوٹرنز بھی لیے ہیں، اگر ہم 2 قدم آگے گئے تو پھر خود ہی 4 قدم پیچھے جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی پیک جائزہ اجلاس: سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تمام وزارتیں تیاری مکمل رکھیں، احسن اقبال
احسن اقبال نے کہا کہ آج باتیں چل رہی ہیں کہ لوگ پاکستان چھوڑ کرجارہے ہیں، لیکن میں نے دنیا کے بہترین ادارے سے تعلیم حاصل کی اور پاکستان کو سنوارنے کے لیے پاکستان آیا، لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ وزارت پلاننگ کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے، تو 1997 سے ہم نے وژن 2010 کے نام سے ایک منصوبہ بنایا، دل میں ارادہ یہی تھا کہ اگر ملائشیا جی20 میں جاسکتا ہے، چین آگے بڑھ سکتا ہے، دوسرے ملک چل سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں، ہم نے ترقی کا سفر شروع کیا لیکن پھر 2 سال بعد مارشل لا لگ گیا۔
’پھر ترقی ایک سائیڈ پر رہ گئی، ہم 10 سال تک اور چکروں میں پڑگئے، کبھی افغانستان کی جنگ لڑی، کبھی کچھ اور لڑا، ڈالر بھی بڑے کمائے لیکن ان ڈالروں سے کوئی خاطر خواہ ملک کی اپنی صلاحیت نہیں بنائی، غیر ملکی امداد پر چھوڑ کر اس وقت کے حکمران چلے گئے۔‘
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان پاکستان کا وہ جھومر ہے جس پر کوئی میلی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، احسن اقبال
ان کا کہنا تھا کہ جب 2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو اس وقت ملک میں 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، ہر روز خود کش بمبار پھٹتے تھے، کراچی میں اگر کوئی گھر سے باہر نکلتا تھا تو اس کی ماں، بہن، بیوی مصلے پر بیٹھ جاتے تھے کہ ہمارا بھائی، شوہر، باپ شام کو گھر آئے گا یا نہیں، پھر ہم نے وژن 25 بنایا کہ ہم 2025 میں ٹاپ 25 معیشت میں آجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سی پیک شروع کیا، جس نے 3 سالوں میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لائی ملک میں، 2017 میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگیا، دہشتگردی بھی ختم ہوگئی، کراچی بھی نارمل ہوگیا اور ملک کی معیشت کا پہیہ چلنے لگا، ہم اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے لگے، پھر ہمیں نظر لگ گئی اور ہم نے 2018 میں ایک تبدیلی کا سفر شروع کیا، اور ہر وہ چیز جو 2013 سے 2018 تک ہوئی اس کی نفی شروع ہوگئی، نتیجہ یہ نکل کہ جب ہم اپریل 2022 میں اقتدار میں واپس آئے تو پاکستان کا ترقیاتی بجٹ جو 2018 میں 1 ہزار ارب تھا وہ سکڑ کر 750 ارب رہ گیا، آج 2024 میں بمشکل ہم اس کو 1100 ارب تک پہنچا سکے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ پچھلے 16 ماہ کی حکومت میں ہم نے اپنے سیاسی مفاد کی قربانی دی اور پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا، پاکستان سری لنکا نہیں تھا کہ ڈیفالٹ ہو تو کہا جائے کہ کچھ نہیں ہوگا ڈیفالٹ ہوگیا تو، پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے، نیوکلیئر ملک کے ڈیفالٹ ہونے اور سری لنکا جیسے ملک کے ڈیفالٹ ہونے میں فرق ہے، اسی لیے ہم نے اس وقت مشکل فیصلے کیے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی حملہ اور پی ٹی آئی احتجاج کی کال کا رائٹر ایک ہی ہے، احسن اقبال
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے نکلنے کا کریڈٹ عوام کو بھی دینا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جہاں شوگر کی قیمت 4 آنے بڑھنے پر ایوب خان کی حکومت پلٹ گئی تھی، وہاں پر 15 دنوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 100 سے 150 روپے تک کا اضافہ ہوا لیکن مظاہرے نہیں ہوئے، کیوں کہ لوگوں کو پتا تھا کہ اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، لوگوں نے تکلیف اور مہنگائی برداشت کی لیکن اس سے ملک بحران سے نکل کر وہاں کھڑا ہوگیا ہے کہ دنیا ایک بار پھر پاکستان کی طرف امید کی نظر سے دیکھنے لگی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے اکنامک انڈیکیٹرز جو نیچے جارہے تھے، اب پھر بحالی کی طرف جارہے ہیں، اسٹاک مارکیٹ جو 27 ہزار پوائنٹس پر کریش کرگئی تھی آج 94 ہزار پوائنٹ کراس کرگئی ہے، شاید عنقریب 1 لاکھ کا ہندسہ کراس کر لے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی ظاہر کررہی ہے کہ سرمایہ کار پاکستان پر اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے دوبارہ 6 فیصد پر آگئی ہے، شرح نمو بہتر ہورہی ہے، ایکسپورٹ بحال ہورہی ہیں، آئی ٹی سیکٹر پرفارم کررہا ہے، تو اسی طرح پاکستان کے مختلف شعبوں میں بہتری نظر آرہی ہے، تو کیا ہم پھر اس کو تسلسل اور استحکام کے ساتھ آگے بڑھا کر خود کو وہ پائیدار بنیاد فراہم کریں گے جس سے ہم 2047 تک ایک پلان لیں سکیں، یا ہم ملک میں فساد اور انتشار کے ذریعے اس دور کو بھی ضائع کردیں گے تاکہ ہم مزید انتشار اور فساد کے ساتھ معاشی مسائل کے بیچ دھنس جائیں جس سے ہماری خود مختاری داؤ پر لگ جائے۔