افغانستان کے بدلتے حالات

اتوار 24 نومبر 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ دو تین ہفتوں میں افغانستان کے حوالے سے کچھ غیر معمولی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ افغان عبوری حکومت میں اندرونی طور پر نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ سینیئر افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کوشش کررہا ہے کہ وزیر دفاع ملا یعقوب اور نائب وزیراعظم ملا برادر کے ساتھ مل کر طالبان امیر المومنین ملا ھیبت اللہ سے مل کر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کوئی راستہ نکالا جائے مگر ملا یعقوب اور ملا برادر وزیر داخلہ سراج حقانی کو آج اور کل پر ٹال رہےہیں۔ سمیع یوسفزئی نے افغان انٹرنیشنل پشتو کے لیے لکھی  اپنی تحریر میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سراج حقانی نے ملا ھیبت اللہ کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں حقانی نے ریفارمز کا مطالبہ کیا ہے اور بصورت دیگر الگ راستہ چننے کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس خط کے بارے میں دیگر آزاد ذرائع سے تصدیق تو نہیں ہوئی لیکن یہ واقعات افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے غیر معمولی کہے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف ٹولو نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملا ھیبت اللہ کے نئے فرمان میں حکم صادر کیا گیا ہے کہ آج کے بعد اسلحہ کی تقسیم ملا ھیبت اللہ کے حکم سے ہی ہو سکے گی جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وزیر دفاع اور وزیر داخلہ دونوں کے اختیارات محدود ہورہےہیں اور یہ افغانستان کے ان آنے والے دنوں کا اشارہ دے رہی ہیں جن کی ہم بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے دو اور غیر معمولی خبریں آج کی موضوع میں شامل کرنا ضروری ہیں۔

حال ہی میں نیویارک ٹائمز کی حیران کن رپورٹ میں افغان وزیر داخلہ سراج حقانی کے حوالے سے بتایا گیا کہ سراج حقانی افغانستان میں مثبت تبدیلیوں کا چہرہ بن کر سامنے آرہا ہے اور غیر ملکی سفارت کار سراج حقانی سے کافی متاثر نظر آ رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ اس لیے بھی حیران کر دینے والی ہے کیونکہ سراج حقانی امریکہ کی طرف سے اس وقت بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے۔

افغانستان کے لیے ہندوستان کے خصوصی نمائندے جے پی سنگھ کا دورہ افغانستان بھی بڑی خبر ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی سامنے آ رہا ہے کہ ہندوستان افغان طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی بدل رہا ہے۔ جے پی سنگھ نے اپنے دورہ کابل میں افغان وزیر خارجہ ملا متقی کے علاوہ افغان وزیر دفاع ملا یعقوب کے ساتھ بھی ملاقات کی ہے۔ جے پی سنگھ کے دورے کی سب سے اہم ملاقات ملا یعقوب کے ساتھ ہے کیونکہ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ملا یعقوب کی پاکستانی عہدیداروں سے کوئی خاص ملاقاتیں رکارڈ پر موجود نہیں ہے۔ مسٹر جے پی سنگھ کی افغان وزیر داخلہ سراج حقانی سے ملاقات کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی اور یہ اس دورے کی کمزور کڑی اس لیے ہے کہ افغانستان میں حقانی گروپ ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے۔

اگر آپ افغان کلچر اور تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہیں تو یہ خبریں کسی مثبت مستقبل کی نشاندھی کرتی دکھائی نہیں دیں گی۔ طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد جو سب سے مثبت چیز ہمارے سامنے ہے وہ یہ کہ پچاس ساٹھ سالوں سے جنگوں کے شکار ملک میں امن آیا ہے اور یہ بات ان لوگوں کے لیے بھی اطمینان کا باعث بنا جو افغان طالبان کے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں پر سخت نالاں ہیں۔

اس وقت آنے والے دنوں کے حوالے سے کافی سنجیدہ سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جن کا جواب بننے والے حالات دے سکیں گے۔ سب سے اہم سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ملا ھیبت اللہ صاحب اس طرح اختیارات اپنے ہاتھوں میں لیتا جائے گا تو ردعمل میں دوسرے فریق کیا سوچ رہے ہوں گے؟ بیشک طالبان سسٹم میں چیزیں منظم ہو سکتی ہیں اور اسلامی نظام کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر بار وہی فیصلہ درست ہو جو ملا ھیبت اللہ لیتے ہیں۔

ملا ھیبت اللہ کی سخت گیریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سراج حقانی جیسا اہم کردار ان سے ملنے کی کوشش کے باوجود نہیں مل پا رہا۔ حالانکہ یہ خبر افغانستان کے اندر سے پبلک فورم پر نہیں آئی لیکن افغانستان سے باہر رہنے والے افغان صحافی مسلسل اس خبر کو رپورٹ کرتے آرہے ہیں۔

ہندوستان کے خصوصی نمائندے جے پی سنگھ سے سراج حقانی کی ملاقات نہ ہونے اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جا سکتا ہے یا پھر یہ سوال اُٹھایا جا سکتا ہے کیا آنے والے حالات کے تناظر میں خطے کے کھلاڑیوں کی سپورٹ سراج حقانی کو حاصل ہوگی؟

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جے پی سنگھ سے سراج حقانی کے نہ ملنے کی وجوہات بس یہی واقعات ہیں مگر ہمارے سوچنے پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ یہ بات صاف ہے کہ افغانستان کے اندرونی حالات کو درست ڈگر پر لانے اور آگے بڑھانے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ذمہ داروں کو عقل مندی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

امریکہ کے خطے سے نکل جانے کے بعد یہ دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر لا تعلق ہوگیا ہے البتہ ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد کچھ حد تک فرق پڑ سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے ابتدائی بیان میں امریکی ڈیپ سٹیٹ کے خاتمے کا اعادہ کیا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ کے اس بیان سے امریکی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں بھی پڑتا تو بھی یہ بات یاد رکھیں کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور میں بھی امریکی خزانے کے منہ بند کر دیے تھے۔ ایسی صورت میں جب خطے کے لیے امریکی پالیسی گاجر کے بجائے صرف سٹک پر مشتمل ہوگی تو اس کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے پالیسی سازوں سے یہی توقع رکھیں گے کہ افغانستان میں کسی بھی نئے بحران کی حوصلہ شکنی کی جائے اور صرف اپنے اندرونی حالات پر توجہ دیں کیونکہ اگر خدانخواستہ اس بار افغانستان اندرونی خلفشار کا شکار ہوتا ہے تو اس کے پاکستان پر شدید مںفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp