خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں صوبائی حکومت اور مقامی جرگے کی کوششوں سے سیز فائر پر عمل درآمد شروع ہو گیا اور رات بھر علاقے میں ایک گولی بھی نہیں چلی لیکن مسلح تصادم کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے خاندان اب بھی خوف کا شکار ہیں اور ان کی محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں پشاور اور دیگر شہروں کی جانب نقل مکانی جاری ہے۔
ضلع کرم کی انتظامیہ نے بتایا کہ مقامی جرگے کی کوششوں سے کرم میں فائر بندی ہو گئی ہے۔ کرم میں تعینات ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاڑا چنار جانے اور پشاور آنے والی مسافر گاڑیوں پر حملے کے بعد علاقے میں حالات خراب اور فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ’کرم میں ہر صورت امن قائم کریں گے‘، کے پی حکومت کا 65 چوکیاں قائم کرنے کا فیصلہ
انہوں نے بتایا کہ مسافروں پر حملے کے رد عمل کے طور پر کئی دیہاتوں پر مسلح حملے ہوئے جن کے نتیجے میں جانیں ضائع ہوئیں اور کئی گھر بھی نذر آتش ہوئے۔
کئی دنوں کی مسلسل کوششوں سے آخر کار فائر بندی پر عمل درآمد تو ہو گیا لیکن پورے ضلعے میں اب بھی خوف کا عالم ہے۔ ضلعی انتظامیہ اور مقامی افراد کے مطابق کئی دیہات فرقہ وارانہ فسادات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔
کرم کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد ریحان نے وی نیوز کو بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی اور وہ پورا ہفتہ محصوررہے۔
انہوں نے کہا کہ موقع ملتے ہی ان کا خاندان علاقے سے نکلنے کو ترجیح دیتے ہوئے پشاور آ گیا اور اب یہیں مستقل رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ریحان کے مطابق مسلح حملوں کے دوران بگن بازار میں واقع ان کا بڑا گھر مکمل تباہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ تو اللہ کا شکر ہے ہم وہاں سے بحفاظت نکل آئے‘۔
ریحان نے بتایا کہ ان حملوں سے کئی دیہات بری طرح متاثر ہوئے اور فی الحال فائر بندی تو ہوگئی ہے لیکن مکین مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’فائر بندی ہو گئی اور معاملہ ختم ہو گیا یہ اتنا آسان نہیں وہ جو سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں اس کا کیا ہو گا‘۔
’بازار، گاؤں گھر تباہ، حکومت پر لوگوں کا بھروسا نہیں رہا‘
نبی جان اوکزئی کا تعلق بھی کرم سے ہے اور ان کا خاندان ہنگو نقل مکانی کر چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بگن اور ملحقہ دیہات میں سب کچھ ختم ہو چکا ہے اور دکانیں، گھر بازار کچھ نہیں بچا۔
نبی جان بتاتے ہیں لوگوں کے پاس نقل مکانی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق وقتی طور پر فائر بندی ہو گئی ہے لیکن قبائلی کبھی بدلہ نہیں چھوڑتے۔ اس کا سب کو اندازہ ہے۔
معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟
کرم میں مسلح تصادم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو عرصے سے چلا آرہا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ بنیادی طور پر 2 قبائل کے مابین شاملات کی زمین کا مسئلہ ہے جو اب فرقہ وارانہ شکل اختیار کر چکا ہے۔
مزید پڑھیے: ضلع کرم میں قبائل کے درمیان فائربندی، مورچوں پر فورسز اور پولیس کے دستے تعینات
نبی جان کے مطابق حالیہ واقعہ 21 نومبر کے مسافروں گاڑیوں پر حملے کے بعد شروع ہوا جو اب فائر بندی کے بعد رکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 21 نومبر کا دہشتگردی کا واقعہ سنی اکثریتی علاقے میں پیش آیا اور مسلح لشکر مبینہ طور پر مقامی آبادی پر حملہ آور ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور دیگر ادارے خاموش تماشی بنے رہے اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
کرم فسادات میں 133 جانیں ضائع ہوئیں
پشاور میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 18 ویں اجلاس میں کرم ایجنڈا پر سرفہرست تھا۔ اس حوالے سے اجلاس کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران آگاہ کیا گیا کہ کرم میں مختلف واقعات کے دوران اب تک 133 قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے جبکہ 177 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ اس مسئلے کے پر امن اور پائیدار حل کے لیے گرینڈ جرگہ تشکیل دیا گیا ہے اور کرم میں کچھ عناصر فریقین کے درمیان نفرت پھیلا کر حالات کو خراب کر رہے ہیں جن کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور انہیں شیڈول 4 میں ڈالا جائے گا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ کرم میں قائم بنکرز مسمار کیے جائیں گے اور لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کیا جائے گا جبکہ کرم شاہراہ کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف مقامات پر 65 چوکیاں قائم کی جائیں گی۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایات بے اثر،ضلع کرم میں جھڑپیں نہ رُک سکیں، ہلاکتوں کی تعداد 130 ہوگئی
کابینہ کو بتایا کہ علاقے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے پلاٹونز کی تعیناتی کے لیے وفاقی حکومت کو مراسلہ ارسال کیا گیا ہے جبکہ جھڑپوں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
اجلاس میں بتایا گیا املاک کے نقصانات کے ازالے کے لیے متاثرین کو معاوضے دیے جائیں گے جس کے لیے علاقے میں سروے کا عمل جاری ہے اور مالی امداد اور معاوضوں کے لیے 38 کروڑ روپے جاری کردیے گئے ہیں جبکہ ضرورت پڑنے پر مزید فنڈز بھی جاری کیے جائیں گے۔