فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔
سماعت شروع ہوتے ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کرتے ہی شق 19 کا حوالہ دیا تو جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ میرا سوال گزشتہ روز بھی یہی تھا کہ کیا تفتیش چارج سے پہلے ہوتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے تفتیش ہوتی ہے پھر چارج ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں واضح ہے کہ ٹرائل اور فئیر ٹرائل میں کیا فرق ہے، چارج فریم ہونے کے بعد شامل تفتیش کیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ ہو تو کیا آرڈر کے خلاف کوئی ریمیڈی کرسکتے ہیں، مطلب اس میں بھی وہی سزائیں ہوتی ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر اعتراف نا کرے تو پھر کیا طریقہ کار ہوگا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اعتراف نا کرنے کی صورت میں بھی کیس وہی چلے گا؟
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل اور 26ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر
خواجہ حارث نے بتایا کہ جج اور ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا کیس نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہوسکتا ہے؟
وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے۔ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کرلے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان، ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا کہ محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھا جاتا ہے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور۔
انہوں نے کہا کہ جب رٹ میں ہائیکورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ غیر ملکی جاسوسوں کے علاوہ اگر کسی عام شہری کا ملٹری ٹرائل ہو تو کیا وہاں صحافیوں اور ملزم کے رشتہ داروں کو رسائی دی جاتی ہے۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں رشتہ داروں اور صحافیوں کو رسائی کا ذکر تو ہے لیکن سیکیورٹی وجوہات کے سبب رسائی نہیں دی جاتی۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا کیس: صرف دیکھنا ہے کہ کون سے مقدمات کہاں سنے جاسکتے ہیں، آئینی بینچ
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت مختصر وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی 7 کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں، خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ٹرائل سے قبل پوچھا گیا تھا کہ کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اپیل میں اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔
آئینی بینچ کے 5 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کردیا جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کیا تاہم جسٹس مسرت ہلالی پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن اجلاس: آئینی بینچ کو 6 ماہ کے لیے توسیع دے دی گئی
ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سارے کیسز ان کو ہی بجھوادیں، وکیل لطیف کھوسہ
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر ملٹری ٹرائل اتنا ہی اچھا ہے تو پھر سارے کیسز ان کو ہی بجھوادیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا فوجی ٹرائل میں کیا معیار ہے میں عدالت کی اس پر معاونت کرتا ہوں، عوامی سماعت ہوتی ہے، پبلک ہیرنگ کا مکمل موقع دیا جاتا ہے، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ٹرائل ہوتا ہے، شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے میں کہا گیا ہے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، ملٹری کورٹس بھی آزاد ہوتی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیں کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے، شرعی طور پر بھی شک کرنا درست نہیں، انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے، ملٹری ٹرائل کرنے والا جج تو اتھارٹیز کے ماتحت ہوتا ہے۔
وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ اگر کسی کے پاس کوئی شواہد ہیں تو بات کریں، محض تاثر پر اعتراض نہیں اٹھایا جاسکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نہ مجھے کسی پر کوئی شک ہے نہ اعتراض ہے، سوال یہ ہے کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کرنے والے کون ہیں، اس لیےپوچھا؟
مزید پڑھیں: آئینی بینچ میں اب تک کتنے پی ٹی آئی مقدمات نمٹائے گئے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا، میں بہت تفصیل میں نہیں گیا، 9 مئی واقعات میں بظاہر سیکیورٹی آف اسٹیٹ کا معاملہ نہیں لگتا۔ 9 مئی واقعات کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل بہت تفصیل سے چلایا گیا، کیا یہ ممکن نہیں یہ تمام ریکارڈ پبلک کردیا جائے تاکہ پبلک ان ملزمان کی مذمت کرسکے، 9 مئی واقعات کے ملزمان نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ عوام میں بے نقاب ہونے چاہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو اتھارٹیز نے طے کرنا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ اگر عدالت اس طرف جائے گی تو اب تک ملٹری کورٹس کے قیام سے متعلق جتنے بھی فیصلے دیے گئے ان پر نظرثانی کرنا پڑے گی، آئین میں آئین و قانون کے تحت عدالتوں کے قیام کا ذکر ہے۔ بہت سارے ممالک میں ملٹری کورٹس قائم ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نارکوٹکس کا پورا کنٹرول فوج کے پاس ہے، نارکوٹکس میں جب کسی ملزم کا ٹرائل چلانا ہوتا ہے تو متعلقہ چیف جسٹس سے سیشن جج مانگا جاتا ہے، کیا یہاں بھی ملٹری کورٹس کے لیے ایسا کیا جاسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس کو آرٹیکل 175 سے الگ رکھا گیا ہے۔
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو بنیادی حقوق کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔