ڈرکسل یونیورسٹی امریکا کے سائنسدانوں نے ایک انقلابی ایجاد کی ہے جو دل کی بیماریوں کے علاج میں روایتی طریقوں جیسے اسٹنٹ یا بائی پاس سرجری کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہ ننھی خوردبینی مشینیں، جنہیں مائیکرو روبوٹس یا نانو بوٹس کہا جاتا ہے، انسانی خون کی نالیوں میں سفر کرتے ہوئے ان مقامات تک پہنچتی ہیں جہاں چربی اور کولیسٹرول جمع ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ مشینیں بغیر کسی آپریشن کے ان خطرناک ذرات کو تحلیل کرکے شریانوں کو صاف کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
سمتھ سونین میگزین کے مطابق، یہ مائیکرو روبوٹس آئرن آکسائیڈ کے ذرات سے بنائے گئے ہیں جو ایک زنجیر کی شکل میں جُڑ کر پیچ دار ساخت اختیار کرتے ہیں۔ ان کا کنٹرول بیرونی مقناطیسی میدان کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ خون کے بہاؤ کے ساتھ حرکت کرتے ہوئے متاثرہ شریانوں تک باآسانی پہنچتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام جمع شدہ چکنائی کو نرم کرنا اور پھر اسے تحلیل کرکے شریانوں کو دوبارہ صحت مند بنانا ہے۔
مزید پڑھیں: ’ہر بار دوائیاں باہر سے لانا پڑتی ہیں‘، سول اسپتال کوئٹہ میں عوام ادویات سے محروم کیوں؟
یہ نانو مشینیں بائیولوجیکل طور پر انسانی جسم کے لیے محفوظ ہیں، اور اپنے کام کے بعد تحلیل ہو جاتی ہیں۔ محققین کے مطابق، ان روبوٹس کے ذریعے علاج کی کامیابی کی شرح موجودہ طریقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جبکہ خطرات نہایت کم ہیں۔
اس منصوبے پر دنیا کے 11 تحقیقی ادارے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں، جن میں سوئٹزرلینڈ، جنوبی کوریا، اور امریکا کے سائنسی مراکز شامل ہیں۔ ڈرکسل یونیورسٹی اس منصوبے میں امریکا کی نمائندگی کر رہی ہے، اور رواں سال کے آخر تک جانوروں پر تجربات کا آغاز کیا جائے گا، تاکہ انسانی آزمائش کی جانب پیشرفت ممکن ہو۔
محققین کا ماننا ہے کہ مستقبل میں ان نینو روبوٹس کے ذریعے نہ صرف دل کی بند شریانوں کا علاج ممکن ہو گا بلکہ یہ ٹیکنالوجی کینسر جیسی مہلک بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال ہو سکے گی۔ یہ ایجاد بلاشبہ میڈیکل سائنس میں ایک نیا باب کھولنے جا رہی ہے، اور امید ہے کہ آئندہ برسوں میں لاکھوں افراد بائی پاس یا سٹنٹ جیسے مہنگے اور تکلیف دہ علاج سے بچ سکیں گے۔