اسلام آباد: کسی بھی نام نہاد دلیل کی بنا پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجینسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی شریعت و قانون کی خلاف درزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان بھر کے جید اور مستند علماء کرام اور مشائخ عظام کی جانب سے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلاما آباد کے ذیلی ادارے “ادارہ تحقیاتِ اسلامی” کے زیر اہتمام منعقد اجلاس میں کیا گیا ۔ “پیغام پاکستان میثاق وحدت” کے عنوان سے ہونے والے اس اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز، مفتی محمد تقی عثمانی،حافظ طاہر محمود اشرفی،مفتی غیب الرحمان،ڈاکٹر علامہ محمد حسین اکبر،پروفیسر ساجد میر،مولانا عبد الخبیر آزاد مولانا مفتی عبد الرحیم، قاری محمد حنیف جالندهری،پیر نقیب الرحمان،حامد سعید کاظمی،علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری،علامہ افتخار حسین نقوی،مولانا زاہد الراشدی،پروفیسر نبی بخش جهانی، پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق،مولانا حامد الحق حقانی،مولانا محمد طیب طاہری، مولانا عزیز الحسن،مولانا طیب قریشی، پیر محمد مظہر سعید شاہ سمیت دیگر علماء کرام اور مشائض عظام نے شرکت کی۔
2018 میں “پیغام پاکستان” کے زیر عنوان ایوان صدر پاکستان سے جاری ہونے والا قومی بیانیہ قرآن و سنت ، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جاسکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت ، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے مزین ہو۔ اس بیانیہ پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کروایا جائے۔ اجلاس میں قرار دیا گیا کہ علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بنا پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجینسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی شریعت و قانون کی خلاف درزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ریاست کے خلاف مسلح محاز آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنا رہا ہے، قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست،
ملک و قوم اور وطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہذار یاست نے ان کو کچلنے کے لیے جو آپریشن کیے تھے اور جو قومی اتفاق رائے سے جولا ئحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیے جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج ، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی ، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گردہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہے ہیں، لہذار یاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف ایسی بھر پور کارروائی کی جائے جس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں۔