امریکا نے ایران کے خلاف ایک اور سخت قدم اٹھاتے ہوئے 20 ایرانی اداروں، 5 افراد اور 3 بحری جہازوں پر انسداد دہشت گردی کے تحت نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ دوسرے ہفتے میں داخل، یورپی ممالک اور تہران کے درمیان سفارتی رابطے جاری
ان پابندیوں کا مقصد ایران کی عسکری اور دفاعی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پابندیوں کی زد میں آنے والے افراد میں پاسداران انقلاب اسلامی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایران کو خطے میں کشیدگی بڑھانے سے روکنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
ایران کے پاس 2 ہفتے کی مہلت ہے، ٹرمپ کا انتباہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے پاس ممکنہ امریکی فضائی حملے سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 2 ہفتے کا وقت ہے، اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ (ٹرمپ) اس مدت سے پہلے بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔
ایران یورپی ممالک سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا
ٹرمپ نے کہا کہ ایران یورپی ممالک سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا، اور جنیوا میں یورپی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔ ان مذاکرات کا مقصد اسرائیل اور ایران کے مابین جاری تنازع کو ختم کرنا ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ فی الحال اسرائیل سے حملے روکنے کی درخواست کرنے کے امکان کو کمزور سمجھتے ہیں، خاص طور پر اس کے بعد جب ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک اسرائیل جارحیت نہیں روکتا، تہران امریکا سے بات چیت دوبارہ شروع نہیں کرے گا۔
انہیں ایک مہلت دی ہے
ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے انہیں ایک مہلت دی ہے، اور میں کہوں گا کہ 2 ہفتے اس کی زیادہ سے زیادہ حد ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کیا لوگ عقل سے کام لینا شروع کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’ایرانی میزائلوں کی تباہ کن طاقت میں مسلسل اضافہ‘
یاد رہے کہ گزشتہ جمعرات کو جاری بیان میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اگلے 2 ہفتوں کے اندر فیصلہ کریں گے کہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں، کیونکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے امکانات موجود ہیں۔
ٹرمپ کے اس بیان کو وسیع پیمانے پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے 2 ہفتے کی سفارتی مہلت کے طور پر دیکھا گیا تھا، جس کے بعد یورپی طاقتوں نے تہران سے فوری مذاکرات شروع کر دیے تھے۔
یورپ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا
تاہم، اپنے تازہ ترین بیان میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر پیش رفت نہ ہوئی تو وہ 2 ہفتوں کا انتظار کیے بغیر بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔
انہوں نے یورپ کے کردار کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کے سفارتکاروں کی ایرانی وزیر خارجہ سے بات چیت بے سود رہی۔ ایران یورپ سے نہیں بلکہ ہم سے بات کرنا چاہتا ہے۔ یورپ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا۔
دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے
جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے مطالبے پر اسرائیل سے حملے روکنے کی درخواست کریں گے، تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسا کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر کوئی فریق غالب ہو رہا ہو تو یہ درخواست کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن ہم تیار ہیں، بات چیت کے لیے بھی آمادہ ہیں، اور دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔