جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس وقت تک پاکستان کے وزیر خارجہ، چین اور افغانستان کے وزراء خارجہ کے ساتھ اپنی گفت و شنید شروع کر چکے ہوں گے۔ اس ملاقات سے کیا حاصل ہوسکتا ہے اور کس تناظر میں یہ ملاقات اہم ہے؟
یہ سوالات تو شاید ہماری سیاسی گہما گہمی اور تیر بازی کی نذر ہو جائیں۔ مگر تاریخ کے اوراق میں حقائق و قرائن کا درج ہونا بھی لازم ہے سو ہم بھی اپنی سی کوشش کیے دیتے ہیں۔
مگر اس واقعہ کو بیان کرنے سے قبل ایک چھوٹا سا پس منظر – ابھی شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کی بیٹھک سے قبل، ایک طوفان بد تمیزی بھارتی میڈیا کی جانب سے اٹھنا شروع ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ اس بار ارناب گوسوامی کی طرح کے لوگ شاید بھارتی اسکرین پر تو چھائے ہی رہے ہوں گے مگر بین الاقوامی سطح پر کس کو آگے کیا جائے کہ اس ایس سی او سے پہلے ہی پاکستان اور اس کے نوجوان وزیر خارجہ پر ایک دباؤ کی کیفیت طاری کر دی جائے۔
لہذا میدان میں بظاہر تمام لبرل اور سیکولر خیالات کے حامل صحافیوں کو اتارا گیا جو اس کام کو اچھا سر انجام دے سکیں۔ اور انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو خوب خوب سنانے کی بھرپور کوشش کی۔ جو یقیناً فطری تھا، آخر بلاول نے ’گجرات کے قصائی‘ کو جو آئینہ دکھایا تھا وہ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
خیر قصہ مختصر، بھارتی صحافیوں (دائیں اور بائیں بازو کے لوگ وہاں پاکستان کے بارے میں صرف ہندوستانی ہیں) کی پریشانی تو سمجھ میں آتی تھی مگر یہ کیا کہ پاکستان کی سیاسی فضا بھی اس قدر مکدر ہوچکی کہ ایک وزیر خارجہ کو بالکل ہی ایک ولن کے روپ میں دکھا دیا جائے تاکہ اگر کوئی پوائنٹ پاکستان کی سبکی کا بھارتی میڈیا کو مل سکے تو وہ اس کا بھرپور استعمال کرسکے۔
وزیر خارجہ کو بالکل ہی ایک ولن کے روپ میں دکھا دیا جائے تاکہ اگر کوئی پوائنٹ پاکستان کی سبکی کا بھارتی میڈیا کو مل سکے تو وہ اس کا بھرپور استعمال کر سکے۔
مثلاً برکھا دت کے پروگرام میں ہمارے صحافی وجاہت سعید خان کے ارشادات ایک اچھے بھلے نارمل پاکستانی کے کانوں سے دھواں نکالنے کے لیے کافی ہیں۔ موصوف نے پاکستان کو ایک ناکام اور اکیلی ریاست قرار دینے کی سعی لاحاصل میں جو پینترے بدلے وہ انہی کا خاصہ ہے۔
وجاہت شاید بھول گئے تھے کہ اس وقت وہ ایک سیاسی ورکر کے طور پر اپنے یوٹیوب چینل پر نہیں بلکہ بھارتی صحافی اور پالیسی ساز وں کے سامنے بیٹھے ہیں۔ خیر، اس پروگرام میں وہ واحد پاکستانی صحافی تھے جنہیں برکھا نے پورا پورا موقع فراہم کیا، باقی نسیم زہرا اور عمر قریشی بس!
اب بلاول بھٹو نے تو جوشنگھائی تعاون تنظیم میں کیا سو کیا، اس کا اثر تو میڈیا پر نمایاں ہے۔ اب اس پس منظر کے ساتھ اس مثلث یعنی پاکستان، چین اور افغانستان کی سہ فریقی بیٹھک کو دیکھیں، جو کہ پاکستان چائنا اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے دوبارہ انعقاد کے ساتھ متوقع ہے۔
سب سے پہلا سوال تو ذہن میں یہی آتا ہے کہ کیا پاکستان واقعی ہی اکیلا ہے؟ جیسا کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کے میڈیا اور جے شنکر وغیرہ کہتے رہتے ہیں اور ان کی لے کے ساتھ کچھ پاکستانی بھی سیاسی ماحول گرمانے کے لیے اپنی لے ملا لیتے ہیں، یا پھر معاملہ بہت اچھا نہیں تو بالکل اندھیر بھی نہیں کے مترادف ہے۔
افغانستان کی عبوری حکومت شاید اس وقت چاہتی ہوگی کہ دنیا اس کو تسلیم کر لے مگر اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ مغرب کو خوش کرنے کے بجائے علاقائی تعاون پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں جہاں ان کی کچھ پالیسیوں سے دنیا نے ناراضی کا اظہار کیا وہیں بہت سے ممالک نے بہر حال ان سے تعلقات بحال کرنا شروع کردیے ہیں۔
تقریبا 21 سے زائد ممالک کے سفارتی مشن دوبارہ کابل میں کھل چکے ہیں۔ چین، ایران اور روس سمیت علاقائی ممالک نے اپنے ملکوں میں افغان عبوری حکومت کے نامزد کردہ سفارتی عملے کو قبول کر لیا ہے۔ پاکستان تو خیر کبھی افغانستان سے نکلا ہی نہیں۔
بھارت جو افغان عوام کی دوستی کا دم بھرتا تھا نہ صرف لگ بھگ ایک سال سے زائد عرصے تک غائب رہا، بلکہ بہت سے افغانوں کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ویزہ فراہمی کی سہولت تک بند اور بلکہ منسوخ کرنے پر اتر آیا۔ خیر اب ان کے سفارتی عملہ نے دوبارہ کابل میں قدم رکھے ہیں، اللہ خیر رکھے!
تجارت اس کے علاوہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ طویل ترین بارڈر ہونے کی وجہ سے تجارتی حجم بھی سب سے زیادہ پاکستان کے ساتھ ہی ہے۔ چمن اور طور خم کے علاوہ تین اور تجارتی راہداریاں کھولی گئی ہیں- عین اس وقت جب افغان عبوری حکومت کا سانس بند کرنے کے لیے مغرب اور ان کے حواری نیا پینترا بدل رہے تھے، پاکستاں نے ایک بار پھر افغان دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ تجارتی راستہ کھول دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے دو سالوں میں اب تک پاکستان نے ایک لاکھ سے زائد ویزہ افغان شہریوں کو دیے ہیں۔ غیر سرکاری یا صرف سفری دستاویز کے ساتھ آنے والے افغان اس کے علاوہ ہیں، جن کی تعداد محدود اندازے کے مطابق تقریبا تین سے چار لاکھ تک پہنچ رہی ہے۔ یہ ان پچاس لاکھ افغان مہاجرین کے علاوہ ہیں جو پچھلی پانچ دہائیوں سے پاکستان میں پناہ گزیں ہیں۔
پاکستان نے سرحدی تجارت کو آسان کرنے کے لیے افغانستان کے تمام ٹرکوں پر ٹیکس کی چھوٹ تک دے دی ہے اور ان کے لیے پورے پاکستان تک رسائی کو بھی آسان کر دیا ہے۔ مگر اس کے برعکس افغان عبوری حکومت نے بہر حال اس گرمجوشی کا مظاہرہ پاکستانی تجارت کے لیے نہیں کیا۔
پاکستان آنے والے مال اور پاکستان سے جانے والے ٹرک پر افغان لیوی اس قدر زیادہ ہے کہ تاجر کو اس میں نفع کم اور رسک اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کو کوئلہ کی برآمد پر افغانستان کے پچاسی ڈالر فی ٹن ٹیکس نے ٹیکسٹائل، اور سیمنٹ جیسی صنعتوں کے لیے توانائی کی لاگت میں اضافہ کیا ہے۔
اس معاملہ پر بہرحال بات ہونی چاہیے اور افغان عبوری حکومت اگر واقعی پاکستان سے لے کر وسطی ایشیا کی مارکیٹ کو جوڑنا چاہتی ہے تو اس طرح کے اقدامات سے پرہیز کرتے ہوئے بڑی تصویر کو دیکھنا ہوگا۔ امید ہے اس سہ فریقی بیٹھک میں اس مسئلے کے حل پر توجہ دے جائے گی اور اس معاملے میں چین اپنا اثر و رسوخ اور پوزیشن استعمال کرے گا۔
روس، وسطی ایشیا، بالخصوص ازبکستان اور پھر ایران کے ساتھ بھی افغانستان کی تجارت نہ صرف رکی نہیں بلکہ اس میں اضافہ کی خبریں ہیں۔ چین نے دریائے آمو کے ساتھ تیل و معدنیات کے ذخائر کی دریافت کے لیے 3 بلین ڈالر کی رقم افغانستان کی معیشت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین پہلے ہی سال میں تقریباً 15 کروڑ ڈالرز افغانستان کے اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے گا۔
اب اس مثلث کا اور بالخصوص چین کا بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ اور اس میں روس کا کردار دیکھیں، سمیت وسطی ایشیا کے ممالک کا معاملہ دیکھیں، چین کی ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا انتظام دیکھیں، پاکستان کے ڈی جی آئی ایس آئی اور بعد ازاں آرمی چیف کا دورۂ چین دیکھیں، چین کا یوکرینی تنازعہ میں ثالث بننا دیکھیں۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی پر چین کا کردار دیکھیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اگر افغانستان اور پاکستان اپنے پتے اچھے طریقہ سے کھیلیں، اور نیتوں کے اخلاص کے ساتھ اپنے علاقے کی ترقی پر توجہ دیں اور اسی کو مقدم رکھیں تو بعید نہیں کہ اس جغرافیائی مثلث سے ایک نئی نوید اور نئی معاشی صبح طلوع ہوسکے۔
پاکستان اور افغانستان کو اپنے اپنے تنازعات کو جلد از جلد ختم کر کے آگے کا سفر شروع کرنا ہے، چاہے ٹرانس افغان ریلوے نیٹ ورک ہو، تاپی کا پروجیکٹ ہو، بدخشاں سے چترال تک کی ہائی وے ہو یا کوئلے کی ترسیل کا معاملہ، دونوں فریقین اور بالخصوص افغان عبوری حکومت کو اب ایک سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ٹی ٹی پی ہو یا بارڈر لیوی کا مسئلہ، اب آگے بڑھنے کا راستہ باہمی مشاورت و یگانگت میں ہی مضمر ہے۔ چین کے آنے سے اس سہ فریقی بیٹھک کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ اگر اس سارے عمل سے بھی فریقین نے فائدہ نہ اٹھایا تو آنے والے دن معاملات کو اتنا الجھا دیں گے کہ اس سارے عمل کی گنجلک ڈور پھر سلجھانا ناممکن ہوجائے گا۔
انڈین میڈیا کی ہرزہ سرائی آپ سب نے ایس سی او میں دیکھ لی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے متعلق ان کے خیالات و اعمال کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، اب یا تو مل بیٹھ کر مستقبل کا راستہ ہموار کیا جائے یا ایک نئی جنگ اور ایک نئے اندھیرے کی جانب اپنا سفر جاری رکھا جائے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔