خدا کے ماننے والے، بھگوان کے پوجنے والے

پیر 7 جولائی 2025
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لیاری میں بوسیدہ بلڈنگ کے ملبے تلے 27 لوگوں کی ہلاکت پر مرتضیٰ وہاب نے وہی کہا جو ایسے مواقع پر بدنصیب شہروں کے میئر کہا کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ حالات کا شکوہ کیا، کچھ مرحومین کے لیے دعا کی، کچھ مظلومین کو کوسا، کچھ سوگواران کو معاوضے کا لالچ دیا۔ کچھ عمارتوں کے مالکان کو نوٹس کیا۔ کچھ پر ریڈ کی نوید سنائی۔ کچھ کو زبردستی خالی کروانے کا مژدہ سنایا۔
مرتضیٰ وہاب کی پریس کانفرنس میں بیک گراؤنڈ میں بھاری مشینری کا شور تھا ۔ جس سے ملبہ اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ شور سب کو سنائی دیا۔ ملبے تلے دبی زندگیوں کی صدا کسی کو نہیں سنائی دی۔
ہر آفت پر ہم یہی کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل قومی ہے۔ نہ پہلے کبھی حادثوں سے بچنے کے لیے پیش بندی کی گئی نہ بعد میں کبھی کوئی پرسان حال ہوا۔ ہر سیاسی جماعت کے کارکن، جو جائے حادثہ پر پہنچے سب نے پرسہ دیا، ماتم کیا تاکہ خبر لگے۔ اور پھر وقت آگے چل پڑا۔ زمانہ کی رفتار پھر وقت کا ساتھ دینے لگی۔ حالات پھر محدود مدت کے لیے ہی سہی مگرمعمول پر آگئے۔ ہاں البتہ ملبے تلے لوگوں کی زندگی کی ساعتیں تھم گئیں۔ وقت ان کی نبض پر رک گیا۔ باقی تو سارا زمانہ رواں رہا، دواں رہا۔
چینلوں نے بریکنگ نیوز چلائی۔ ڈی ایس این جیز برق رفتاری سےپہنچیں۔ رپورٹروں نے لائیو بیپر دیے۔ مرنے والے کے ماتمین کو گلے لگایا۔ ان کے ساتھ آنسو بہائے۔ ان کے غم میں شریک رہنے کا فیصلہ کیا۔ واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا عہد کیا لیکن پھر ملبہ ختم ہو گیا۔ 5 منزلوں کا ڈھیر اٹھا دیا گیا۔ کسی کے بچ جانے کی امید ختم ہو گئی۔ مرنے والوں کا کفن دفن شروع ہوا۔ چینلوں کی دلچسپی ختم ہوئی۔ نئی خبریں آ چکٰیں۔کہیں نیا واقعہ وقوع پذیر ہو چکا۔

ہنگام کے ان لمحات میں کسی نے سندھ پر برسوں سے حکومت کرنے والوں سے نہیں پوچھا کہ ایسی کتنی عمارتیں ہیں جہاں زندگیاں ملبہ بننے کی منتظر ہیں۔ سرکاری نوٹس ملنے کے بعد ان عمارتوں میں رہائش کا ریٹ کیا ہوتا ہے؟ کتنی لرزتی عمارتیں ہیں جن کے مکین اب وہاں بلڈنگ مافیا کے کسی کارندے کی ساز باز سے رہ رہے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ان بوسیدہ لرزتی عمارتوں میں رہائش کا بھتہ دے رہے ہیں۔ زمین پر گرنے والی عمارتوں میں اوپر کی آمدنی کس طرح وصول کی جا رہی ہے ۔ کتنے لوگ ہیں جو بلڈنگ انسپکٹر کی مدد سے موت کے ان کنوؤں میں جی رہے ہیں؟
بتانے والے بتاتے ہیں کہ نوٹس بھی مل جاتا ہے، سرکار بھی عمارت چھوڑ جانے کا حکم دیتی ہے لیکن رہائشی جگہ نہیں چھوڑتے۔ آپ کو پتہ ہے کہ کیوں لوگ اس طرح کی موت کو قبول کرتے ہیں؟ کیوں لرزتی عمارتوں کے انہدام تک ان میں قیام پذیر رہتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی اور جگہ نہیں ہوتی۔ وہ مرنا پسند کرتے ہیں لیکن بے گھر ہونا پسند نہیں کرتے۔ یہ لرزتی چھت ان کا واحد سہارا ہوتی ہے۔ یہ اکھڑا پلستر، یہ کچی بنیادیں، یہ ناقص تعمیر ان کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ ان سے اگر یہ بھی کوئی بلڈنگ انسپکڑ چھین لے تو وہ پھر بھی فٹ پاتھوں پر ڈمپروں تلے کچل کر مر جاتے ہیں۔
لیای وہ علاقہ ہے جو پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے گڑھ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے غریب کارکن ملبے تلے دب کر زندگی کی بازی تو ہار سکتا ہے مگر پیپلز پارٹی نہیں ہار سکتی۔ اس علاقے نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی نے ان سے نعرے لگوائے، جلسے کروائے، لانگ مارچوں میں انہیں استعمال کیا۔ ان کے بل بوتے پر کبھی وفاق کو للکارا، کبھی صوبائیت کی بات کی۔ ایم کیو ایم بھی اس علاقے پر راج کرتی رہی۔ انہوں نے یہاں سے خوب بھتے لیے، پرچیاں تقسیم کیں مگر اس علاقے کے مکینوں کے حق کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔
اب کچھ عرصہ تو شور رہے گا، پھر خاموشی ہو جائے گی۔ پھر انہی لرزتی عمارتوں میں رہنے کا کرایہ پہلے سے زیادہ وصول کیا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سماج اب ایسا بن چکا ہے کہ یہاں ہر طرح کے ملبے کے خریدار موجود ہوتے ہیں۔
کل کو ہم یہ ملبہ بھی بھول جائیں گے۔ اس کے تلے دبی لاشوں کی کراہیں بھی ہماری سماعتوں سے معدوم ہو جائیں گی۔ اسی پلاٹ کی بڑی شاندار نیلامی ہو گی۔ پھر 3 منزلوں کی اجازت ملے گی، پھر 5 منزلیں بنائی جائیں گی۔ پھر وہ عمارت گرے گی۔ کراچی میں زندگی کا پہیہ پھر ایسے ہی چلتا رہے گا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے المیے اپنے ہاں اس تواتر سے ہوتے ہیں کہ ہمیں نہ لاشیں گننے کا ہوش ہوتا ہے نہ ماتم کرنے کی فرصت رہتی ہے۔ لیکن مایوسی کےاس اندھیرے میں روشنی کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے۔ عمارت کے گرنے سے مرنے والوں کی تعداد کو سب نے بارہا گنا مگر شاید ہی کسی نے بتایا ہو کہ 27 لاشوں میں سے 21 لاشیں ہندو برادری کی تھیں جو غربت اور کسمپرسی میں یہاں زندگی بسر کر رہے تھے۔ شاید ہی کسی نے بتایا ہو کہ اس عمارت کے پڑوس کی بلڈنگ میں سلمان احمد رہتا ہے جس نے جب حادثے کے دھماکے کی آواز سنی تو پہلے تو یہ سمجھا کہ زلزلہ آگیا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے بھاگ کر حادثے کے مقام کی طرف لپکا ۔ 2 بچیاں سیڑھی سے لٹک رہی تھیں۔ سلمان احمد نے لپک کر دونوں بچیوں کو بچا لیا۔ پل بھر بعد سیڑھی دھڑام سے نیچے گر گئی۔ سب کچھ ملبے کا ڈھیر ہو گیا۔ وہ 2 بچیاں ایک ہندو خاندان کی بچیاں تھیں۔ خدا کے ماننے والے نے بھگوان کو پوجنے والوں کو بچا لیا لیکن نہ ان سے ان کا مذہب پوچھا، نہ ان کے مسلک کے بارے میں دریافت کیا۔ نہ ان کے بھگوان کو برا بھلا کہا، نہ انہیں اقلیت ہونے کا طعنہ دیا۔ اس نے وہ کیا جو انسانیت کا تقاضا تھا۔ نہ اپنے مسلمان ہونے کا رعب جمایا نہ ان کی تضحیک کی۔ وہ کیا جو انسانیت کا سبق تھا، جو نبی کریم ﷺ کا درس تھا۔
ہمارے ہاں بین المذاہب ہم آہنگی پر کتنے سیمینار ہوتے ہیں، کیا کیا نصحیتیں نہیں کی جاتیں۔ پریس ریلیز میں کون کون سی مبہم اور مشکل تلمیحات استعمال نہیں کی جاتیں۔ لیکن ان سب سے وہ کام نہیں ہو سکا جو تنہا سلمان احمد نے کر دکھایا۔ دیکھا جائے تو سلمان احمد بین المذہب ہم آہنگی کا سب سے توانا نشاں ہو گیا ہے۔ سلمان احمد ملبے میں روشنی کا امکاں ہو گیا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے