چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ آج ایک ماہ بعد ملاقات ہوئی ہے جس میں پارٹی امور، قانونی معاملات اور تحریک سے متعلق اہم گفتگو ہوئی۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جب کسی کو آئسولیٹ کردیا جائے، اخبار نہ دیا جائے اور ملاقات کی اجازت نہ ہو تو کئی امور تشویش کا باعث بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مائنس عمران کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بیرسٹر گوہر نے علیمہ خان پر واضح کردیا
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کے دوران طویل اور اہم گفتگو ہوئی ہے، مگر اس کی تفصیلات فی الوقت شیئر نہیں کی جاسکتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ایک ماہ بعد ملاقات ہوئی ہے جس میں پارٹی امور، قانونی معاملات اور تحریک سے متعلق اہم گفتگو ہوئی۔
اس سے قبل اڈیالہ جیل کے قریب داہگل ناکے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر نے کہا کہ ان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں تمام راستے کھلے رکھنے چاہییں اور کوشش یہ ہے کہ مذاکرات ہوں تو اُن ہی لوگوں سے ہوں جن سے واقعی بات ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، بیرسٹر گوہر
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی مذاکرات سے راہ فرار اختیار نہیں کی، بلکہ بانی عمران خان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان نے حکومتی مذاکرات کی حالیہ پیشکش کو اس لیے ٹھکرا دیا کیونکہ ان کے مطابق حکومت اگر سنجیدہ ہے تو پہلے کوئی مثبت قدم اٹھائے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں مصافحہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بات چیت ہونی چاہیے اور اسپیکر آفس کے ذریعے رابطے کا مشورہ دیا تھا۔ ایک سوال پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰان کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں بن سکا، لیکن ان سے تعلقات منقطع نہیں ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 نومبر سے پہلے عمران خان کی رہائی کے قریب تھے، مذاکرات میں پیشرفت ہوتی تو بڑا بریک تھرو ہوتا، افسوس کے ساتھ کہ معاملات آگے نہیں چل سکے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو مائنس کیا جارہا ہے، علی امین گنڈاپور ایم پی ایز کو لے کر اڈیالہ کے باہر بیٹھ جائیں، علیمہ خان
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی کی کوشش ہے کہ بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی فوری رہائی ممکن ہو، کیونکہ وہ 700 دن سے زائد عرصے سے قید میں ہیں۔ اگر رہائی ممکن نہیں تو کم از کم ان سے رسائی دی جائے تاکہ ان سے مشاورت ہوسکے کہ آگے بڑھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔