فرانس اور دیگر ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے جواب میں اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں شامل کرنے پر غور کر رہا ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کے مطابق فی الحال یہ واضح نہیں کہ یہ ممکنہ اقدام صرف اسرائیلی بستیوں پر لاگو ہوگا یا پھر مغربی کنارے کے مخصوص حصوں جیسے وادی اردن پر کن علاقوں پر۔ اگر اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لیے طویل قانون سازی کے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے: غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت، نیتن یاہو کی کابینہ کا غزہ کو قبضے میں لینے پر غور
مغربی کنارے کے کسی بھی حصے کو اسرائیل میں شامل کرنے کی کوشش پر فلسطینیوں سمیت عرب اور مغربی ممالک کی جانب سے شدید مذمت کا امکان ہے۔ فلسطینی اس علاقے کو مستقبل کی آزاد ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موجودہ مؤقف کے بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی جبکہ وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ نے تاحال تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

نیتن یاہو نے ماضی میں بھی یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہودی بستیوں اور وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کریں گے لیکن 2020 میں انہوں نے یہ منصوبہ اس وقت ترک کر دیا جب امریکا کی ثالثی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے ابراہام معاہدے طے پائے۔
اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے 2024 میں فیصلہ دیا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور وہاں بستیوں کی تعمیر غیرقانونی ہے اور اسے فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ تاہم اسرائیل ان علاقوں کو متنازعہ زمین قرار دیتا ہے اور قبضے کے الزامات کو تسلیم نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیے: مغربی کنارے کو 2 حصوں میں تقسیم کا اسرائیلی منصوبہ، سعودی عرب کے بعد جرمنی کا بھی شدید اعتراض
اسرائیل کو غزہ جنگ کے باعث عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے۔ فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔
دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کے الحاق کو بھی عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ اب نیتن یاہو کی حکومت میں شامل کئی وزراء برسوں سے مغربی کنارے کے حصوں کو باقاعدہ اسرائیل کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔













