معروف شاعر رحمان فارس نے کہا ہے کہ وہ اظہار ذات کے لیے شعر کہتے ہیں اور یہ تاثر غلط ہے کہ اردو زبان ختم ہو گئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شعرا اور ادیبوں کو فکر معاش سے آزاد کرے تاکہ وہ اس پریشانی سے آزاد ہو کر تخلیقی کام کرسکیں۔
حکومت کو چاہیے کہ شعرا اور ادیبوں کو فکرِ معاش سے آزاد کرے تاکہ وہ تخلیقی کام کر سکیں، شاعر رحمان فارس pic.twitter.com/ydZPZbVqAx
— WE News (@WENewsPk) September 3, 2025
وی ایکسکلوسیو میں چیف ایڈیٹر ’وی نیوز‘ عمار مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ آج کی نوجوان نسل اردو ادب سے جس شدت کے ساتھ جڑ رہی ہے، شاید اس سے پہلے کبھی ممکن نہ تھا۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے معاشرے کی اصل آواز صرف نوجوان ہی بن سکتے ہیں۔
’شعرا اور ادیبوں نے تخلیقی کام چھوڑ دیا تو جگہ ٹک ٹاکر پُر کرلیں گے‘
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر شعرا اور ادیب تخلیقی کام چھوڑ دیں گے تو وہ جگہ ٹک ٹاکرز پُر کر لیں گے۔
رحمان فارس نے کہاکہ حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستانی دنیا بھر میں سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چلنے لگے ہیں۔ مئی کے 4 روز نے ہمیں حوصلہ دیا ہے۔ اسی حوالے سے میں نے ایک شعر بھی کہا تھا:
’جو وقت آیا تو جاں دیں گے اور سر دیں گے
مگر تمہیں نہ کبھی بام و در دیں گے
انہیں بتانا کہ ہم کربلا کے فاتح ہیں
جو کہہ رہے ہیں کہ ہم پانی بند کر دیں گے‘
’بنیان مرصوص‘ کی بدولت پاکستان کی عزت افزائی ہوئی
انہوں نے کہا کہ ’بنیان مرصوص‘ کی بدولت پاکستان کی عزت افزائی ہوئی ہے، سب سے بڑا چیلنج اب اس مقام کو قائم رکھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اللہ کی عطا ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر بھی کامیابی حاصل کر رہا ہے۔
رحمان فارس نے کہا کہ موسیقی اور مجسمہ سازی سے وابستہ لوگوں کی خدمات اعلیٰ اور منفرد ہیں، جبکہ افسانہ نگار اور کالم نگار بھی معاشرے کی فکری تشکیل کرتے ہیں۔ اگر آپ کے ایک جملے سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے تو سمجھیں کہ آپ نے اس مٹی کا قرض ادا کر دیا۔
ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لاہور میں ایک مشاعرے کے دوران احمد فراز صدرِ مشاعرہ تھے۔ ایک شاعر نے بلند آواز میں کہا کہ ’میں شعر پیش کر رہا ہوں‘، جس پر احمد فراز نے جواب دیا کہ ’تم سناتے جاؤ، جب شعر آئے گا تو ہم دیکھ لیں گے۔‘
’نوجوان اردو رسم الخط کو ترک نہ کریں‘
رحمان فارس نے کہا کہ ادیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کلچر کی کڑیوں کو جوڑ کر رکھے۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ اردو رسم الخط ترک نہ کریں، کیونکہ اگر آپ نے رومن میں لکھنا شروع کیا تو اردو زبان دم توڑ دے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے سے شدت کو کم کرنے کے لیے ادب اور شاعری کا کردار بنیادی ہے۔ ادیب اور شاعر محبت کے علمبردار ہوتے ہیں اور جہاں محبت ہو وہاں شدت باقی نہیں رہتی۔
ان کے مطابق ہمیں اپنے شاعر، گلوکار اور ادیب کو وہ رتبہ دینا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں، کیونکہ وہی معاشرے کو سکون دیتے ہیں۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شعرا اور ادیبوں کو فکر معاش سے آزاد کرے تاکہ وہ اس پریشانی سے آزاد ہو کر تخلیقی کام کر سکیں۔