پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت گاڑیوں کی مہنگی قیمتوں کے باعث لوگ زیادہ تر جاپانی گاڑیوں کو پسند کرتے ہیں، چونکہ جاپانی گاڑی کو قانونی طریقے سے یہاں پہنچانے پر بھاری ٹیکس ادا کرنے ہوتے ہیں اس لیے بعض لوگ یہ گاڑیاں جاپان سے منگوا کر ان کے چیسز یا دیگر کاغذات میں ردوبدل کرتے ہیں اور پھر ایسی گاڑی کو پاکستان میں چلاتے ہیں، اس گاڑی کو ٹیمپرڈ گاڑی کہا جاتا ہے۔ ایسی گاڑی رکھنا، خریدنا یا بیچنا غیر قانونی ہوتا ہے۔ محکمہ ایکسائز، کسٹمز اور دیگر ادارے ایسے گاڑی پکڑے جانے پر ضبط کر لیتے ہیں۔
ایسی گاڑیاں جن کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہ کی گئی ہو اور وہ سڑک پر پکڑ لی جائے تو ایسی گاڑی کو ضبط کرنے کے بعد محکمہ کسٹمز نیلام کر دیتا ہے اور وہ رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو جاتی ہے۔ قانون کے مطابق ٹیمپرڈ گاڑی کو ضبط کرنے کے بعد نیلام نہیں کیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیے اسلام آباد میں فینسی نمبر پلیٹس کے خلاف کریک ڈاؤن، خلاف ورزی پر گاڑیاں ضبط ہوں گی
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی زیر صدارت اجلاس میں ٹیمپرڈ اور ضبط شدہ گاڑیوں سے متعلق موجودہ قوانین اور پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیمپرڈ اور ضبط شدہ گاڑیوں کی نیلامی سے متعلق نیا کسٹمز جنرل آرڈر (سی جی او) جلد جاری کرے گا۔
اجلاس میں ذیلی کمیٹی کو ان گاڑیوں کے تصرف کے لیے جامع طریقہ کار وضع کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ تفصیلی مشاورت کے بعد، کمیٹی نے اتفاق رائے سے ایک نیا کسٹمز جنرل آرڈر تیار کیا جس کی بعد ازاں نائب وزیراعظم نے منظوری دی۔
اس موقع پر اسحاق ڈار نے اس فیصلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ضبط شدہ اور ٹیمپرڈ گاڑیوں کے تصرف کا عمل مؤثر، شفاف اور منظم ہوگا، جس سے نہ صرف شفافیت بڑھے گی بلکہ قومی خزانے کے لیے آمدن بھی حاصل ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے بلوچستان حکومت نے کفایت شعاری کے اعلان کے باوجود کتنی نئی گاڑیاں خریدنے کا ٹھیکہ دیا؟
فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) نے ایف بی آر کو سفارش کی تھی کہ ٹیمپرڈ چیسی نمبر والی ضبط شدہ گاڑیاں فلاحی اداروں کو فراہم کرنے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے رجوع کیا جائے تاکہ یہ ادارے ٹیمپرڈ گاڑیوں کو فلاحی سرگرمیوں میں استعمال کر سکیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل رواں سال 14 جون کو چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو سفارش دی تھی کہ ٹیمپرڈ گاڑیوں کے ضبط ہونے کے بعد 30 دنوں میں ان گاڑیوں کو تلف کر دیا جائے تاکہ ان گاڑیوں کے پارٹس مارکیٹ میں فروخت نہ ہو سکیں، واضح رہے کہ انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ ٹیمپرڈ گاڑی پکڑنے کے بعد اس کے پارٹس مارکیٹ میں فروخت کر دیے جاتے ہیں۔