نیپال میں حالیہ احتجاجی مظاہروں کے دوران شدید جھڑپوں میں 51 افراد ہلاک اور 1,300 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 21 مظاہرین 9 قیدی، 3 پولیس اہلکار اور دیگر 18 افراد شامل ہیں۔
یہ احتجاج پیر (8 ستمبر) کو اس وقت شروع ہوا جب ہزاروں نوجوانوں نے کٹھمنڈو میں پارلیمنٹ کے قریب حکومت کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا الزام تھا کہ نیپالی قیادت کرپٹ، اقربا پرور اور خود غرض ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال: ایک ڈکٹیٹر سے دوسرے ڈکٹیٹر تک کا جین زی انقلاب، ایک انجینئر نے کیسے انقلاب کی بنیاد رکھی؟
احتجاج کا ایک اہم سبب حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عارضی پابندی بھی بنی، جو اسی روز ہٹا دی گئی تھی۔
نوجوانوں کے ملک گیر احتجاج کے بعد حسینہ واجد کی طرح نیپال کا کرپٹ وزیراعظم بھی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہو گیا ہے۔😂 pic.twitter.com/Mpn2jdG5c0
— Shahussain Khan (@ShahussainKha6) September 10, 2025
صورتحال اس وقت سنگین ہوگئی جب مشتعل ہجوم نے صدارتی محل اور دیگر سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کردیا، جس کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا اور محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال: سابق چیف جسٹس سشیلہ کرکی نے عبوری حکومت کی سربراہی قبول کرلی
حکام کے مطابق 17 افراد دارالحکومت کٹھمنڈو میں اور 2 افراد مشرقی شہر ایتہری میں ہلاک ہوئے، 9 ستمبر کی رات فوج نے کٹھمنڈو کا کنٹرول سنبھال لیا۔
جمعرات 11 ستمبر کو فضائی اڈہ دوبارہ کھلنے اور بین الاقوامی پروازیں بحال ہونے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑنے کی کوشش کرنے لگے۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ نیپال کی سابق چیف جسٹس سشیلہ کرکی کو عبوری وزیر اعظم مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔