11 اکتوبر کی شب پاکستان اور افغانستان کی حالیہ تاریخ کی شدید ترین جھڑپیں ہوئیں۔پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق ان جھڑپوں کا آغاز افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کی کئی بارڈر چیک پوسٹوں پر بلا اشتعال فائرنگ سے ہوا جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف افغان طالبان کی 19 چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا بلکہ افغانستان کے اندر کئی ایسے ٹھکانوں کو تباہ کیا جہاں سے دہشتگرد پاکستان بھیجے جا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب، 19 افغان چوکیوں پر پاک فوج کا قبضہ
پاکستان کی جانب سے ان حملوں کا مسلسل جواب دیا جا رہا ہے اور ہر اس جگہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے یا دہشت گرد بھیجے جاتے ہیں۔
بعد ازاں سامنے آنے والے حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ فائرنگ کی یہ کارروائی معمول کے ان واقعات سے کہیں زیادہ سنگین ہے جن میں دہشتگردوں کو پاکستان کی سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ کا ’کور‘ دیا جاتا ہے۔
درحقیقت یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عبوری افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور اس دوران انہوں نے نہ صرف پاکستان مخالف بیانات جاری کیے بلکہ کشمیر کو انڈیا کا حصہ بھی تسلیم کیا۔
’فوجی بوٹوں کو سفارت کاری کا لباس پہنانے کی کوشش‘
ایک طرف افغانستان کے عبوری وزیرخارجہ کی دہلی میں بیٹھ کر بیان بازی اور دوسری طرف سرحد پر اشتعال انگیزی کے بعد کابل اور دہلی کے درمیان وہ ہم آہنگ منصوبہ بے نقاب ہو گیا ہے جس کا مقصد پاکستان کو غیر اعلانیہ جنگ، پراپیگنڈے اور سفارتی دباؤ کے ذریعے غیر مستحکم کرنا ہے اور اس کی پیش بندی پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے اطراف ایک عرصے سے ہو رہی تھی۔
پاکستانی حکام اس ٹائمنگ کو ایک خاص نظر سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ عین اسی وقت جب امیر متقی دہلی میں امن کی بات کر رہے تھے تو ان کے زیرِ انتظام اہلکار سرحد پار فائرنگ میں مصروف تھے۔
پاکستان کے پالیسی ساز حلقے اس پیشرفت کو أفغان طالبان کی جانب سے ’فوجی بوٹوں کو سفارت کاری کا لباس‘ پہنانے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں بھارت میں بڑھتی ہوئی افغان سرگرمیوں اور سرحد پر عسکری کارروائیوں میں ایک منظم تسلسل ہے جس کا مقصد پاکستان دشمن عناصر کو سیاسی تحفظ دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’ پاکستان اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے ہر حد تک جائے گا‘، صدر اور وزیراعظم کا افغان جارحیت پر سخت ردِعمل
پاکستانی حکام کا یہ بھی ماننا ہے کہ افغان طالبان فورسز کی جانب سے بیک وقت مختلف صوبوں سے سرحدی علاقوں پر حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے پیچھے کوئی مرکزی منصوبہ بندی کارفرما ہے۔ اس منصوبہ بندی پر خطے کے ایسے عناصر کا اثر ہے جو جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
کابل کی سیاسی قیادت ایک جانب بیرونِ ملک مذاکرات کی بات کرتی ہے، جبکہ دوسری جانب اندرونِ ملک جارحیت کی اجازت دیتی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف افغان عبوری حکومت کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ امن کے بیانیے کو بھی کمزور کرتا ہے۔
بھارت اور افغان عبوری حکومت کی قربت
پاکستانی حکام سمجھتے ہیں کہ بھارت کی افغان عبوری حکومت سے بیک وقت بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیاں اور پاکستان کی سرحد پر جاری جھڑپیں اس تاثر کو تقویت دیتی ہیں کہ دہلی اور کابل پاکستان پر دو محاذوں سے دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔
ٹی ٹی پی سے افغان ریاست کی وابستگی
عبوری افغان حکومت کی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عناصر سے بڑھتی ملی بھگت دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو مزید کمزور کر رہی ہے۔ اگر کابل نے یہ پالیسی جاری رکھی تو اسے خطے میں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انڈیا، افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے اتحاد کو ایک بڑے علاقائی گیم پلان کے تناظر میں بھی پرکھا جا رہا ہے۔
اسٹریٹیجک پالیسی ساز اس وقت انڈیا اور افغانستان کی سفارتی اور پاکستان کے اوپر سیکیورٹی اور دہشتگردی کا دباؤ بڑھانے کی پالیسی کو پاکستان کے موجودہ اندرونی اختلافات اور کمزوریوں کو استعمال کر کے غیر مستحکم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان کو بھرپور جواب دیا جائے گا، وزیر داخلہ کا سخت ردعمل
اگرچہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سرحد پر اپنی فوجی کارروائیوں کو محض جارح عسکری اہداف تک محدود رکھ کر اور مصدقہ خفیہ معلومات کے تحت ترتیب دے کر عام لوگوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں لیکن افغانستان اور طالبان نواز دیگر ڈیجیٹل میڈیا اکاونٹس ان سرحدی جھڑپوں میں اپنے نقصانات چھپانے کے لیے پرانے جنگی مناظر کو مخصوص زاویوں سے دوبارہ نشر کر کے اس بڑے گیم پلان میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق میدان جنگ میں ہاری ہوئی لڑائی کو سوشل میڈیا پر اس جھوٹے انداز سے پھیلانے کی یہ مہم بھارتی طریقۂ کار سے متاثر ہے جو انہوں نے بالخصوص مئی 2025 کی انڈیا۔پاکستان جنگ میں اپنایا تھا۔
پاکستان کے خلاف جارحیت اور انڈیا کے ساتھ دوستی کابل کو کتنی مہنگی پڑے گی؟
پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنے عوام کی فلاح کے بجائے تخریبی اتحادوں اور بیرونی اثرات کو ترجیح دے کر خود اپنے شہریوں سے دوری اختیار کر رہی ہے۔
افغان عوام تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار کے لیے دہائیوں سے پاکستان پر انحصار کرتے آئے ہیں۔ اور اگر کابل نے یہی روش برقرار رکھی تو پاکستان کے یہ دروازے جو ماضی میں افغان عوام کی بقا اور روابط کا ذریعہ رہے ہیں، بند ہو جائیں گے۔
ان پالیسیوں سے نہ صرف افغانستان علاقائی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا بلکہ اس کے عوام اور پناہ گزینوں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ہم نے ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کے لیے قربانیاں دی ہیں، لیکن اگر ہمارے امن کے جذبے کو کمزوری سمجھا جائے تو ہمیں اپنی دفاعی پالیسی میں واضح اور متوازن ردعمل دینا ہوگا۔ پاکستان کو نہ دبایا جا سکتا ہے، نہ جھکایا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی حکام اندرونی سطح پر بھی قومی وحدت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک مؤثر بیانیے کے فروغ پر کام کر رہے ہیں۔
حالیہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنے والا وقت خطے میں مزید کشیدگی لائے گا اور پاکستان کو بیک وقت افغان طالبان اور انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہو گا، وہ جارحیت عسکری کے ساتھ ساتھ پراپیگنڈے کے میدان میں بھی ہو گی۔