پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟

اتوار 9 نومبر 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میڈیا رپورٹس کے مطابق 6 نومبر سے شروع ہونے والے پاک افغان استنبول مذاکرات اُس وقت اختتام پذیر ہو گئے جب مذاکرات کے دوران افغان وفد کو کابل کی جانب سے نئی شرائط پر مشتمعل مذاکرات کا نیا ڈرافٹ موصول ہوا۔ جس پر پاکستانی مذاکرات کار اور دونوں ثالثی کرنے والے ممالک ششدر رہ گئے اور مذاکرات ناکامی سے دو چار ہوئے۔

لیکن گزشتہ مذاکرات کی طرح سے اِس بار آنے والے ڈیڈلاک کے بارے میں مذاکرات کی کسی نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی مذاکرات جاری رکھنے کے بارے میں بات کی گئی۔

پاکستان کا مؤقف

گزشتہ روز وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ایک پیغام میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے لیے ہم برادر ممالک ترکئے اور قطر کے مشکور ہیں۔ اب یہ افغانستان کی ذمّے داری ہے کہ دہشتگردی پر قابو پانے کے ضِمن میں طویل عرصے سے التواء کا شکار اپنی علاقائی اور بین الاقوامی ذمّے داریاں پوری کرے جس میں وہ تاحال ناکام نظر آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دل میں افغان عوام کے لیے کوئی بُری نیّت نہیں لیکن پاکستان افغان طالبان رجیم کے کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے مفاد کے خلاف ہو۔ پاکستان اپنی خودمختاری اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اُٹھاتا رہے گا۔

طالبان کا ردِعمل

دوسری طرف افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ  ’پاکستان کے مسلمان عوام افغان عوام کے بھائی ہیں، اسلامی امارت ان کے لیے خیر خواہی اور امن کی دعا کرتی ہے، اور اپنی ذمہ داریوں اور صلاحیتوں کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کرتی رہے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

اِس بیان کا ایک مقصد تو افغان طالبان حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کی صورت میں نظر آتا ہے تو دوسری طرف یہ کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے حوالے اپنی عدم صلاحیت کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ بعض افغان وزرا کُھلے عام پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ایک اشتعال انگیز ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ممکنہ عسکری ردِعمل

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بے نتیجہ مذاکرات کا منطقی نتیجہ ممکنہ طور یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی کے لیے افغانستان میں دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس کو نشانہ بنائے جو دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر سے جنگی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔

 6 نومبر کو مذاکرات سے کچھ پہلے ایسی صورتحال پیدا بھی جب دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جبکہ 11/12 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اُس وقت عروج پر پہنچی جب افغانستان کی جانب سے پاکستان سرحد کے حملے شروع ہوئے جس کے جواب میں پاکستان نے افغانستان میں دہشتگردی کے مخصوص مقامات کو نشانہ بنایا۔

مذاکرات کا جاری رکھنا بہتر حل ہے، آصف درّانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈلاک کو حل کرنے کے حوالے سے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ مذاکرات جاری رکھے جائیں چاہے مذاکرات کے 30 دور ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔

پاک افغان مذاکرات میں طے پانے والے نکات کا عکس

دوسری صورت میں دشمن اِس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھائے گا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ مذاکرات سے کبھی بھی اِنکار نہیں کرنا چاہیے۔

ڈیڈلاک کب ختم ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معتبر تجزیہ نگار اور صحافی طاہر خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے جو ڈیڈلاک پیدا ہوا ہے یہ کب تک ختم ہو گا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا مسوّدہ دونوں ثالث ممالک نے تیار کیا تھا جس کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف

طاہر خان نے کہا پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروپس کی قیادت کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا جائے جس سے افغان سائیڈ نے اِنکار کیا۔ جبکہ افغان سائیڈ نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کو کہا جس پر پاکستان سائیڈ نے اِنکار کیا کیونکہ پاکستان اِس طرح کے مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتا جو کہ پاکستان کی بیان کردہ اور اعلانیہ پالیسی ہے۔

پاکستان کا بنیادی مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان راستے بھی بند ہیں تجارت بھی رُکی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے ثالثوں کو بھی مایوسی ہوئی ہو گی۔ لیکن دونوں طرفین نے ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات نہیں بتائیں۔

مذاکرات کا خاتمہ بدقسمتی ہے،حسن خان

افغان اُمور کے حوالے سے معتبر صحافی حسن خان نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات کا ختم ہو جانا ایک بدقسمتی کی بات ہے جبکہ دوحہ میں یہ طے ہوا تھا کہ استنبول مذاکرات میں مانیٹرنگ میکنزم طے کیا جائے گا۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کاروائیوں کے لیے استعمال نہ ہو اور دہشتگردوں کو وہاں پر آزادانہ ماحول فراہم نہ کیا جائے۔

ان مذاکرات میں دونوں اطراف کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے لیکن اِن مذاکرات سے قبل ہی افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی ہدایات منظر عام پر آئیں تھیں کہ افغان طالبان کسی ایسے سیاسی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس کے ذریعے سے دہشتگرد گروہوں کی افغان سرزمین کے عدم استعمال کی یقین دہانی کروائی جا سکے۔ کچھ افغان وزرا اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کریں گے تو ایسی صورت میں پاکستان ویسا ہی جواب دے گا جیسا اِس سے پہلے دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر بلوچستان میں انٹرنیٹ سروس معطل ’انٹرنیٹ صرف سہولت نہیں، ہمارا روزگار ہے‘

خیبرپختونخوا میں منعقدہ جرگے کے بڑے مطالبات، عملدرآمد کیسے ہوگا اور صوبائی حکومت کیا کرےگی؟

سینیٹ اجلاس کا ایجنڈا جاری، 27ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری ایجنڈے میں شامل

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ون ڈے سیریز کے 2 میچز کا شیڈول تبدیل

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ