افغان طالبان سے دوبارہ بات چیت کا عندیہ دیتے ہوئے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے دوست ممالک کی درخواست کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ترکیہ کی حکومت اور عوام پاکستان کے محسن ہیں، ترکیے کے وفد کی آمد ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ترکیہ اور قطر کا شکر گزار ہے جنہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے مذاکرات میں خیبر پختونخوا کی نمائندگی ناگزیر ہے، بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف
وزیر دفاع نے کہا کہ اگر ہمارے دوست ممالک کو کوئی موقع یا امکان نظر آیا ہے اور وہ رابطہ کر رہے ہیں تو بات چیت ہوسکتی ہے۔
’اگر یہ ممالک کابل سے کسی پیش رفت کے بعد کوئی تجویز دے رہے ہیں تو ہم اپنے بھائیوں کو انکار نہیں کر سکتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی ذاتی دلچسپی کے بھی ہم قدردان ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان بمقابلہ افغان طالبان، مذاکرات ختم، نیا محاذ تیار، افغانستان کا مودی سے گٹھ جوڑ
خواجہ آصف کے مطابق طالبان ماضی میں زبانی طور پر کچھ باتوں کو مانتے تھے لیکن تحریری ضمانت دینے پر آمادہ نہیں تھے، جبکہ کابل کی حکومت اب بھی مکمل طور پر متحد نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ طالبان کے کابل پر قابض ہونے کے وقت دیا گیا ان کا بیان ’پچھتاوے‘ کا باعث ہے۔
آئینی ترمیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے بعد 28ویں آئینی ترمیم بھی متوقع ہے، جس میں وہ نکات شامل کیے جائیں گے جو پہلے رہ گئے تھے۔
مزید پڑھیں: دوحہ میں نتیجہ خیز مذاکرات کے بعد پاکستان و افغانستان فوری جنگ بندی پر متفق
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قطر اور ترکیہ میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
تاہم افغان طالبان کی جانب سے تحریری ضمانت نہ دیے جانے کے باعث یہ مذاکرات کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے۔














