امریکا نے مشتبہ منشیات اسمگلنگ میں ملوث ایک کشتی پر مشرقی بحرالکاہل میں حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے۔
امریکی سدرن کمانڈ کے مطابق خفیہ معلومات سے ثابت ہوا کہ مذکورہ کشتی منشیات کی اسمگلنگ میں استعمال ہو رہی تھی اور ایک معروف اسمگلنگ روٹ پر بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہی تھی۔ بیان کے مطابق کشتی کو جوائنٹ ٹاسک فورس سدرن اسپیئر نے نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیے:لیبیا کے ساحل کے قریب 2 کشتیوں کے حادثے میں کم از کم 4 تارکین وطن ہلاک، درجنوں لاپتا
یہ ستمبر کے اوائل سے اب تک منشیات بردار کشتیوں کے خلاف امریکی فوج کا 21واں حملہ ہے۔ پینٹاگون کے مطابق ان کارروائیوں میں اب تک 80 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
ان حملوں کی قانونی حیثیت پر امریکی کانگریس کے ارکان، انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی اتحادی ممالک نے سوالات اٹھائے ہیں۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسے مکمل قانونی اختیار حاصل ہے، اور محکمہ انصاف کی قانونی رائے کے مطابق ان کارروائیوں میں شامل فوجی اہلکاروں کو بھی قانونی استثنیٰ حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا کا طیارہ بردار بحری بیڑا کیریبین روانہ، منشیات بردار کشتیوں کیخلاف کارروائیاں تیز
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا کہ مبینہ منشیات گروہ کارٹیل ڈی لوس سولیس کو غیر ملکی دہشتگرد تنظیم قرار دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد امریکا میں اس گروہ کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا جرم ہوگا۔ امریکی حکام کے مطابق یہ گروہ وینزویلا کے مجرمانہ نیٹ ورک ’ٹرین دے اراگوا‘ کے ساتھ مل کر منشیات امریکا تک پہنچاتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو اس کارٹیل کی قیادت کرتے ہیں، تاہم مادورو اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے بحری جنگی جہاز، لڑاکا طیارے اور ایک جوہری آبدوز کیریبین میں تعینات کر دی ہے اور وینزویلا حکومت کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی پر غور جاری ہے۔












