جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو بحال کر دیا

جمعہ 26 مئی 2023
author image

بلال غوری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ نے 30 سال پہلے آج ہی کے دن نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بحال کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ کیسے ہوا؟ 58 ٹوبی کے تحت صدارتی اقدام کالعدم قرار پایا تو صدر غلام اسحاق خان کے بجائے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ کیوں مانگا گیا؟ کاکڑ فارمولا کیا تھا جس کے تحت صدر اور وزیراعظم دونوں کی چھٹی ہوگئی؟ یہ تمام سوالات کئی برس بعد بھی جواب کے منتظر ہیں۔

صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے تعلقات اس قدر کشیدہ ہو چکے تھے کہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کے روا دار نہ تھے۔ میجر جنرل محمود علی دُرانی جو تب پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ کے سربراہ تھے، ان سمیت کئی لوگوں نے صدر اور وزیر اعظم میں مصالحت کروانے کی کوشش کی۔

محمد خان جونیجو کی وفات پر  21 مارچ 1993ء کو دونوں کی رسمی علیک سلیک تو ہوئی مگر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ میاں محمد شریف کی ہدایت پر نواز شریف نے ایوان صدر جا کر غلام اسحاق خان سے ملاقات بھی کی مگر برف نہ پگھل سکی کیونکہ صدر اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔

روئیداد خان جو صدر غلام اسحاق خان کی کچن کیبنٹ کا حصہ تھے، وہ اپنی کتاب ’ Pakistan a dream gone sour‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ اسمبلیاں توڑنے کے لیے ’مین ہٹن پراجیکٹ‘کے کوڈ نیم سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا جس کے مطابق پیپلز پارٹی نے پیشکش کی کہ صدر چاہیں تو ان کے ارکان پارلیمنٹ اپنے استعفے پیش کرسکتے ہیں تاکہ صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا جواز میسر آسکے۔

صدر اور وزیر اعظم میں ملاقات کے بعد یہ طے پایا کہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے کے لیے ایک مسودہ بھی ایوان صدر بھجوایا گیا مگر صدر غلام اسحاق خان نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے 8 سطروں کا ایک بیان جا ری کر دیا جس میں کہا گیا کہ صدر نے وزیر اعظم کو بتایا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی امور پر انہیں کیا کرنا چاہیے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ اقدامات اُٹھانے کے بعد ایوان صدر کو رپورٹ دیں۔

نوازشریف نے اس بیان سے یہ تاثر لیا کہ غلام اسحاق خان کسی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی طرح احکامات جاری کر رہے ہیں اور وزیر اعظم سے یہ سلوک شایان شان نہیں۔ چنانچہ ایوان صدر کے خلاف اعلانیہ مزاحمت کا فیصلہ کرلیا گیا۔

17 اپریل کو نواز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے وہ شہرہ آفاق تقریر کی جس میں انہوں نے کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ نواز شریف نے صدر غلام اسحاق خان پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ استعفیٰ دیں گے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہیں گے۔

صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی تائید و حمایت حاصل ہونے کے بعد 58 ٹوبی کے تحت دوسری بار صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت برطرف کردی اور 18 اپریل کی شام قوم سے خطاب کیا۔

نوازشریف کا خیال ہے کہ فوج نے اس موقع پر اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیا۔ سہیل وڑائچ کی کتاب ’غدارکون‘ میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے نوازشریف کہتے ہیں ’اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان بعد میں ہوا جب کہ فوجی دستے پہلے ہی پی ٹی وی میں داخل ہوگئے ایسا قانونی طور پر غلط تھا کیونکہ وزیر اعظم کی مرضی کے برعکس فوجی دستوں کو تعینات نہیں کیا جا سکتا اور تب تک وہ وزیر اعظم تھے‘۔

نواز شریف نے ٹرین کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا اور صدراتی حکم نامے کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ اس دوران چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے جنرل (ر) ضیا الدین خواجہ سے ملاقات کی، جو تب بطور میجر جنرل لاہور میں ایک ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے۔

جسٹس نسیم حسن شاہ نے پوچھا کہ اس مقدمہ کے حوالے سے فوج کیا چاہتی ہے؟ میجر جنرل ضیا الدین خواجہ نے آرمی چیف سے پوچھ کر بتایا کہ آپ میرٹ پر فیصلہ کریں۔ چنانچہ 26 مئی کو سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نوازشریف کی حکومت بحال کردی اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ میں شامل 11 ججوں میں سے ایک جج جسٹس سجاد علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا۔

یوں عدالتی فیصلے کے ذریعے نوازشریف وزیراعظم کے منصب پر بحال ہوگئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر غلام اسحاق خان عدالتی فیصلہ آنے کے بعد مستعفی ہو جاتے مگر انہوں نے آرمی چیف سے ملکر نواز شریف کو تگنی کا ناچ نچانے کا فیصلہ کرلیا۔

قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے پنجاب میں نوازشریف کے بااعتماد ساتھی غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ تھے مگر نواز شریف بحال ہوئے تو ان کی جگہ منظور وٹو کو وزیراعلیٰ بنوایا جا چکا تھا۔ اسی طرح موجودہ خیبر پختونخوا میں بھی میر افضل وزیراعلیٰ کے عہدے پر متمکن ہو چکے تھے۔ منظور وٹو کی سفارش پر گورنر چوہدری الطاف حسین نے پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی۔

28 جون کو لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم کالعدم قرار دیا تو فیصلہ آنے کے 7 منٹ بعد ہی وزیراعلیٰ کی سفارش پر گورنر نے ایک بار پھر اسمبلی تحلیل کر دی۔

حکومت چلانے کے لیے تخت لاہور پر قبضہ ناگزیر تھا، صدر سے گورنر پنجاب کو تبدیل کرنے کو کہا گیا مگر وہ نہ مانے۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قرار داد منظور کروانے کے بعد ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہنگامی حالت نافذ کرکے میاں اظہر کو بطور ایڈمنسٹریٹر صوبے کا کنٹرول سنبھالنے کا حکم دیا، رینجرز کو کہا گیا کہ وہ ان حکامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں مگر آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ان احکامات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے رینجرز کو عملدرآمد کروانے سے روک دیا۔

یکم جولائی کو 10ویں محرم کے روز آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں یہ حل تجویز کیا گیا کہ وزیراعظم، صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دیں اور عام انتخابات کا اعلان کرکے نیا مینڈیٹ حاصل کریں۔گویا صدر غلام اسحاق خان کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ان سے استعفیٰ لینے کے بجائے وزیر اعظم کو گھر بھیجا جارہا تھا۔

نوازشریف نے کہا کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز اسی صورت دیں گے اگر صدر غلام اسحاق خان بھی استعفیٰ دیں، چنانچہ ایک نیا حل تجویز کیا گیا اور چونکہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ ضامن تھے اس لیے یہ ’کاکڑ فارمولا‘ کہلایا۔

کاکڑ فارمولے کے تحت 18جولائی کو وزیر اعظم نواز شریف نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سفارش کی جسے قبول کرنے کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ معین الدین قریشی کی سربراہی میں نگران حکومت تشکیل دی گئی اور 6 اکتوبر 1993ء کو عام انتخابات کروانے کا اعلان کردیا گیا۔

معین قریشی آئی ایم ایف کے نائب صدر رہے، اور جب قرعہ فال ان کے نام نکلا تو وہ سنگاپور میں تھے اور ان کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ یا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔ انہیں لانے کے لیے اسپیشل چارٹرڈ طیارہ بھیجا گیا اور ان کے بھائی بلال قریشی سے ناپ لینے کے بعد عجلت میں شیروانی سلوائی گئی تاکہ وہ پاکستان کے قومی لباس میں بطور وزیر اعظم حلف لے سکیں۔ انتخابات کے بعد وہ واپس امریکا چلے گئے اور پھر کبھی پاکستان نہیں آئے اس لیے معین قریشی کو امپورٹڈ وزیر اعظم کہا جاتا ہے۔

نگران حکومت کا مقصد تو انتخابات کروانا تھا مگر معین قریشی نے سابقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی اور ان لوگوں کی فہرست جاری کر دی جن کے قرضے معاف کیے گئے تھے۔

نوازشریف کا خیال ہے کہ ان اقدامات کا مقصد پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرنا تھا۔ آئی جے آئی غیر فعال ہو چکی تھی اور اس بار نوازشریف مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے تھے، انہیں سائیکل کے بجائے شیر کا انتخابی نشان الاٹ ہوا۔

6 اکتوبر1993ء کو ہو رہے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ن)کے مقابلے میں معمولی اکثریت حاصل ہوئی۔ پیپلزپارٹی کو 1988 کے انتخابات کی نسبت تو کم نشستیں ملیں مگر وہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 86 نشستوں پر کامیابی ملی جب کہ مسلم لیگ (ن) کو 73 نشستیں حاصل ہوئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp