کراچی کو اس بار ایک اور ممکنہ طوفان کا سامنا ہے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق ‘بیپر جوائے’ نامی طوفان کراچی کے جنوب سے 1120 کلو میٹر دُور ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق طوفان کا رُخ اب پاکستان اور بھارت کی ساحلی پٹی کی جانب ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ طوفان کس ساحلی پٹی سے ٹکرائے گا۔
ایک سوال جو ہر ایک کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ ان طوفانوں کے نام کون رکھتا ہے اور اس کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟
مزید پڑھیں
ماضی میں بھی بحیرۂ عرب اور بحرِ ہند میں اس طرح کے طوفان بنتے رہے ہیں اور انہیں باقاعدہ کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا رہا ہے۔
سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔ اس پینل میں ابتدائی طور پر 7 ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
سن 2004 سے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی،ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔ سن 1999 میں ایک سائیکلون پاکستان کے شہر بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تب اس کا نام زیرو ٹو اے تھا جو اس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔
بعد ازاں ‘پی ٹی سی’ میں تمام ممالک کے محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں، ادا کرنے میں آسان ہوں۔ پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔
اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنائی گئ جو 2020 تک رہی اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔
پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی گلاب، اثنا، صاحب، افشاں، مناحل، شجانہ، پرواز، زناٹا، صرصر، بادبان، سراب، گلنا اور بلبل شامل ہیں۔
سن 2020 میں اس فہرست کا مجوزہ آخری نام ‘ایمفن’ تھا۔ یہ طوفان خلیجِ بنگال میں بنا تھا اور اس کا رخ بھارت کی جانب تھا بعد ازاں پی ٹی سی کے تمام 13 رکن ملکوں نے گزشتہ برس طوفانوں کے ناموں کی ایک نئی فہرست ترتیب دی تھی۔
یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔ مثلاً 2020 میں بننے والی نئی فہرست کا سب سے پہلا نام بنگلہ دیش کا تجویز کردہ رکھا گیا جو ‘نسارگا’ تھا۔بعدازاں بھارت، ایران، مالدیپ اور میانمار کے ناموں کا نمبر آیا۔ میانمار کا تجویز کردہ نام ‘تاؤتے’ تھا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی عمان کے تجویز کردہ نام کا طوفان ‘ یاس ‘ بنگال اور اڑیسہ کے ساحلوں سے ٹکرا کر ممبئی تک تباہی پھیلا گیا تھا۔ یاس رواں سال کی فہرست کے مطابق تجویز کردہ آخری طوفان تھا ۔
ان طوفان کے ناموں میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی ٹی سی میں شامل ممالک میں سے اکثر ان طوفانوں کا نام خواتین کے ناموں پر رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی زیادہ تر نام خواتین کے ناموں پر تجویز کیے گئے ۔ اس حوالے سے سن 1986 میں واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ’مردانہ نام طوفانوں کی شدت اور رومانس کی اس حد تک وضاحت نہیں کرتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ اکثر ممالک کا کہنا ہے سمندری جہازوں کے نام مردانہ اور ماہی گیر کی کشتیوں کے نام نسوانی ہوتے ہیں اور ماہی گیروں کا سمندر سے بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے اس لیے ہم طوفانوں کا نام ماہی گیروں کی ان کشتیوں سے منسوب کرتے ہیں ۔