ہائی برڈ نظام کی تخلیق کے لیے کئی اداروں نے شب و روز محنت کی تھی۔ یہ پالیسی کا ایک مستطیل تھا، مثلث تھا یا مربع کچھ معلوم نہیں۔ مگر سب نے دیکھا کہ اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، عدالتیں، پارلیمنٹ، سوشل میڈیا، بیوروکریسی سب شدت سے ایک پیج پر آگئیں۔ انہوں نے مل کر ایسا رنگ جمایا کہ کسی مخالف آواز کی شنوائی نہ ہو سکی۔ جس نے آواز بلند کی اس کا گلہ گھونٹ دیا، جس نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات کی، اسے زنجیر عدل سے جکڑ دیا گیا۔
اس معاملے میں کسی حجاب، کسی شرم اور لیت و لعل سے کام نہیں لیا گیا۔ سب کچھ سرعام ہوا، بے حساب ہوا۔ ملک میں لوگوں کی سوچوں پر ایسا جمود طاری کیا گیا کہ لوگوں کو چور، ڈاکو کے سوا کوئی آواز ہی سنائی نہ دی۔ سماج نفرتوں میں بٹ گیا۔ نفرت کی آگ کی تپش گھروں میں، خاندانوں میں، گلی کوچوں میں، ڈھابوں سے لے کر ہوٹلوں تک اور شہروں سے لیکر گاؤں تک پھیل گئی۔ اس تمام عرصہ میں لوگوں کی یہ تربیت دی گئی کہ گالی دینا سب سے بڑی دلیل ہے، تمسخر اڑانا سب سے بڑا کارنامہ ہے اور توہین کرنا سیاست کی معراج ہے۔
ہائی برڈ نظام ختم ہوا۔ اسے کس نے ختم کیا تو اس کا جواب سب کو ہی معلوم ہے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جس کو سامنے رکھ کر پس منظر میں مفادات کی بساط بچھائی گئی۔ وہی پتے جب ہوا دینے لگے تو اہل خرد کو ہوش آئی کہ ہم نے تو اپنا ہی گھر نذرآتش کرلیا، اپنے ہاتھ سے ملک تباہ کر دیا، اپنی کاوشوں سے اپنے ادارے کی بھد اڑا دی۔ جیسے ہی ادراک ہوا، تادیب کا عمل شروع ہوا۔ 9 مئی عمران خان کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ اس کی ذمہ داری عمران خان کے سوا کسی اور پر عائد نہیں ہوتی۔
وہی منصوبے کے ہیرو اور وہی ولن قرار پائے۔ انہی کے برتے پر ہائی برڈ نظام تخلیق ہوا، انہی کے توسط سے اس کی تدفین ہوئی۔ اب اس نظام کی راکھ سے اٹھنے والا دھواں ضرور چند چہروں پر کالک مل رہا ہے مگر وہ نفرت کی بھڑکتی آگ ختم ہو چکی ہے۔ کہیں کہیں اب بھی کوئی بارودی سرنگ اس نظام نے دفن کی ہے مگر اب اہل خرد نے سنبھل کر چلنا سیکھ لیا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں، ایک غلط قدم پھر ملک کو لوہار کی بھٹی میں لے جائے گا اور اس دفعہ ان کا تراشا ہوا لوہا کندن کہلائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ عمران خان کا میڈیا پر نام بھی لینا ممنوع ہو گیا ہے مگر ان کی گرفتاری کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھا۔
اب صورت حال مختلف ہو چکی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے لیے کھلا میدان ہے۔ اب معیشت کی بحالی بنیادی نعرہ ہے۔ سب جماعتیں اس کے بارے میں بلند وبانگ دعوے کر رہی ہیں۔ بعض کے دعووں پر مراد سعید کی تقریر کا بھی شبہ ہوتا ہے جس میں انہوں نے 200ارب ڈالر پہلے آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے بعد 100ارب ملک کے لیے بھی بچا لیے تھے۔ اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک ارب روپے مانگنے کے لیے ترس رہے ہیں اور وہ اس ملک میں بسی مخلوق کے خون کا مطالبہ کر رہا ہے۔
اسحاق ڈار کے لیے یہ کہنا سہل ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے قرضہ نہ دیا تو ہم قربانی دیں گے۔ لیکن وہ شخص جس کے گھر میں روٹی کی قیمت سے اضافے سے ماتم بپا ہوجاتا ہے، جس کے اہل خانہ بجلی کا بل دیکھ کر سناٹے میں آ جاتے ہیں اور جس کے بچوں کو اسکول سے اس لیے اٹھا لیا گیا کہ وہ ان کی فیس ادا نہیں کرسکتا۔ وہ مزدور، کلرک اور متوسط طبقے کا اک شخص اب نہ قربانی کر سکتا ہے نہ مزید قربانی دے سکتا ہے۔
کہنے کو تو اب ہائی برڈ نظام کا زور ٹوٹ گیا۔ اب انتخابات ہوں گے، سیاسی عمل شروع ہو گا، معیشت کی بحالی کی طرف توجہ ہو گی لیکن معاملات اتنے بھی سادہ اور پروقار نہیں۔ اب بھی نظام کی تکون کا ایک سرا لاپتہ ہے۔ جب تک یہ تکون مکمل نہیں ہو گی کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
جنرل فیض حمید چیف بننا چاہتے تھے نہ بن سکے، ان کی جگہ عاصم منیر نے سنبھال لی۔ قاضی فائز عیسی کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں کی گئیں مگر ان کی تعیناتی کے نوٹیفیکشن پر صدر مملکت نے فوراً دستخط کردیے۔ یہ تو ہوگئے تکون کے 2 کونے ۔ تیسرا کونا نواز شریف کی واپسی میں پوشیدہ ہے۔ ان کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں، انہیں دور کر کے عزت اور احترام سے جب واپس لایا جائے گا، تب ہائی برڈ نظام کا اثر ختم ہو گا۔
عدلیہ اور اداروں میں تبدیلی اہم ہوتی ہے مگر ان سے عوام کے دلوں میں گھر نہیں ہوتا۔ عوام کی تائید حاصل کرنے کے لیے سیاست دانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس دن نواز شریف واپس آئیں گے اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے تو طاقت کی یہ تکون مکمل ہو گی۔ ترقی، بحالی اور فلاح کا تصور اس سے پہلے ممکن نہیں۔
بات ہائی برڈ نظام سے شروع ہوئی تھی تو یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ تجربہ تھا ناکام ہو گیا ۔ جب تک اس کے تخلیق کاروں کو پابند سلاسل نہیں کیا جائے گا بات نہیں بنے گے۔
خبریں تو بہت سی ہیں ۔ لوگ بھی بہت سے ہیں جن پر تادیب کا خنجر چلنا چاہیے۔ جیسے یہ خبر کہ قاضی فائز عیسی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن 3 ماہ پہلے جاری کرنے کی وجہ یہ تھی کہ در انصاف کے چند رکھوالے ان کے نام کو بٹہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سازش پکڑی گئی اور نوٹیفکیشن 3ماہ پہلے جاری کردیا گیا۔ اس سازش میں کون کون شامل تھا یہ خبر اب خاص حلقوں میں عام ہو چکی ہے۔
سننے میں یہی آ رہا ہے کہ اس بارودی سرنگ کو بچھانے والوں کے نام کسی فہرست میں لکھ لیے گئے ہیں، عید قربان کے بعد چند ججز کی قربانی کا مرحلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔
سنا ہے صورت حال کی نزاکت سمجھتے ہوئے بعض ججز کو ابھی سے خواب میں خنجر نظر آ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انصاف کے نام پر دھندا کرنے والوں میں سے دنبہ کون بنتا ہے اور چھری کس پر چلتی ہے؟