سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے سماعت کے آخر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صحافی عمران ریاض کو ٹریس کریں اور ان کی بازیابی کے لیے اقدامات کریں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صحافی عمران ریاض خان ہماری حراست میں نہیں ہیں۔ ان کی بازیابی کے لیے جو بھی معاونت درکار ہوئی ریاست فراہم کرے گی۔‘
ان کی بازیابی کے لیے کوششیں کریں، چیف جسٹس
جس پر چیف جسٹس نے کہا ’ان کی بازیابی کے لیے کوشش کریں تاکہ وہ عید اپنے گھر والوں کے ساتھ گزار سکیں۔‘
اس سے قبل چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں فون پر ایک خط موصول ہوا ہے جس میں شکوہ کیا گیا ہے کہ وہ کوئی ایکشن نہیں لے رہے۔
چیف جسٹس نے ایک اور واقعے کا ذکر کیا کہ کراچی سے ایک شخص اور اس کی 2 بیٹیوں کو اٹھایا گیا، 6 سال اس کی بیگم مختلف فورمز سے رجوع کرتی رہی لیکن کوئی حل نہیں نکلا۔ پھر ہم تک بات پہنچی تو ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایات جاری کی گئیں اور ایک ہفتے میں باپ اور بیٹیاں مل گئیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو زور دے کر کہا کہ لاء آفیسرز اپنی طاقت پر یقین رکھیں وہ بہت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کی وکلاء اور صحافیوں سے متعلق خصوصی ہدایت
چیف جسٹس نے گمشدگیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سے معاشرے میں خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو وکلاء اور صحافیوں سے متعلق خصوصی ہدایت کی کہ ان کو ہراساں نہ کیا جائے۔
درخواست گزار چوہدری اعتزاز احسن نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں اور بچوں کے حوالے سے بھی ہدایات جاری کی جائیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سویلین اتھارٹیز کی جوڈیشل تحویل میں 39 خواتین ہیں جبکہ آرمی کی تحویل میں کوئی خاتون نہیں۔
فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا پھر مسترد
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا مسترد کر دی ہے کیونکہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا، صرف تحقیقات ہو رہی ہیں۔
درخواست گزار وکلاء نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کے اس بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے کہ ٹرائل شروع ہوا اور نہ ہی ابھی شروع ہو گا کیونکہ اٹارنی جنرل کا بیان ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے متضاد ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ٹرائل جاری ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا دعویٰ ہے کہ نہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا گیا۔