پاکستان ڈیمو کریٹکٹ موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے ہم چاہتے تھے کہ عدم اعتماد نہیں احتجاج کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو گرایا جائے مگر اپنا موقف رکھنے کے باوجود ہمیں اجتماعیت کی طرف جانا پڑا۔
پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کو سب نے تسلیم کیا تھا۔ ہم تب بھی اسمبلی میں جانے کے حق میں نہیں تھے۔
مزید پڑھیں
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو دبئی میں میٹنگ کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی دبئی میٹنگ پر اعتراض نہیں کر سکتی کیوں کہ وہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک تحریک تھی جس کی اب ضرورت نہیں رہی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ ایک ماہ کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد مرکز، سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اب ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے مدد پہلا قدم ہوگا اور اس کے بعد سرمایہ کاری آئے گی۔
انہوں نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ شخص امریکا کو گالیاں دیتا ہےا ور دوسری جانب ان سے دوستی بھی کی جا رہی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ قرآن پاک کی توہین کرنے والی عالمی برادری اس شخص کی حمایت کیوں کرتی ہے۔
فیض حمید نے چیئرمین سینیٹ بنانے کی آفر کی تھی: فضل الرحمان کا انکشاف
مولانا فضل الرحمان نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے انہیں سسٹم میں تبدیلی لانے کا کہا تھا مگر وہ انکار ہو گئے۔
جے یو آئی سربراہ نے کہا کہ فیض حمید کے ملاقات کے لیے بلانے پر میں نہیں گیا تو وہ خود ملنے کے لیے آ گئے اور مجھے کہا کہ میں چاہتا ہوں آپ سینیٹ کے رکن بننے کے بعد چیئرمین سینیٹ کی کرسی پر بیٹھیں مگر میں نے انکار کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2002 میں عمران خان نے مجھے وزیراعظم کے لیے ووٹ دیا تھا مگر میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اگر یہ حقیقت نہ کھلتی کہ چیئرمین پی ٹی آئی یہودیوں کا ایجنٹ ہے تو ووٹ کا قرض ضرور اتارتا۔