پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج بن بلائے سپریم کورٹ پہنچ گئے ۔ کوئی وقت تھا کہ وہ بلانے پر بھی عدالت نہیں آتے تھے۔
میں نے اسی بابت ایک سوال مختلف مقدمات میں عمران خان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے سردار لطیف کھوسہ سے پوچھا، انہوں نے ایک بلند قہقہہ لگایا۔ شاید یہی ان کا جواب تھا۔
آج ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر نے عمران خان سے کہا کہ آپ کے سکیورٹی گارڈ صحافیوں کو دھکے دے رہے ہیں جس پر عمران خان نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں۔
عمران خان آج صبح جب عدالت پہنچے، انہوں نے کافی وقت سپریم کورٹ بار روم میں گزارا اور بعض صحافیوں سے ملاقات بھی کی۔
عمران خان نے نامزد چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ انہیں ریفرنس بھیجا گیا جو انہوں نے آگے فارورڈ کر دیا۔ اس پر سوال کیا گیا کہ آیا یہ ریفرنس اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آیا تھا؟
اس پر عمران خان نے سوالیہ انداز میں کہا کہ آپ کو کوئی شک ہے؟
القادر ٹرسٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ یہ مقدمہ بند ہو چکا تھا، اس کو دوبارہ نکال کے لائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کو سپریم کورٹ کلین چٹ دے چکی ہے، ہم اس پر کیا کہہ سکتے ہیں۔
آج جب توشہ خانہ کیس میں ٹرائل روکنے کی عمران خان کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندگان عدالت میں موجود نہیں تھے جس پر عدالت نے سماعت ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردی اور اس کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین سپریم کورٹ کے بار روم چلے گئے جہاں سے اٹھ کر وہ دوبارہ ساڑھے 10 بجے عدالت میں آئے۔
سماعت کے موقع پر خاصی دھکم پیل ہوئی۔ عمران کی پرائیوٹ سکیورٹی نے کمرہ عدالت کا دروازہ بند کر دیا، جس پر بعض صحافیوں نے اعتراض کیا کہ پرائیوٹ سکیورٹی کا سپریم کورٹ میں کیا کام ؟
مقدمہ ہے کیا؟
گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہونے کے بارے میں مقدمہ ٹرائل سیشن کورٹ کو ریمانڈ کیا تھا جس نے فیصلہ دیا کہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے۔ ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو عمران خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن آج سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی نے آبزرو کیا کہ ٹرائل کورٹ مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں فیصلہ دے چکی ہے اور ہم ٹرائل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے بارے میں مداخلت نہیں کریں گے۔
بینچ کی دوسری رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اب تو یہ مقدمہ حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر اس مقدمے کو ریمانڈ ہی کرنا تھا تو ہماری دیگر درخواستیں جن میں مقدمے کی دوسری عدالت منتقلی، عدالتی دائرہ اختیار کے بارے میں درخواست، جج کے تعصب کے بارے میں درخواست، اور ہماری کچھ اضافی وجوہات کے بارے میں درخواستوں پر فیصلہ کرتے۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے اور وہ 27 اگست کو سماعت کے لیے مقرر ہے، اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ خواجہ حارث کو مقدمے کے ریمانڈ کئے جانے سے کوئی ایشو نہیں، یہ صرف دیگر درخواستوں کا فیصلہ چاہتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے مقدمہ ریمانڈ کیا اور ٹرائل کورٹ نے جلد فیصلہ دے کر مجھے یہاں سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے آبزرو کیا کہ آپ کی درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہائیکورٹ نے کوئی فیصلہ کیا ہوتا تو آپ کی درخواست سنتے لیکن ہائیکورٹ نے تو صرف کیس ریمانڈ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے، ہائیکورٹ کو ہدایت جاری کی کہ وہ عمران خان کی دیگر درخواستوں پر فیصلہ کرے۔