امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ انٹرسیپٹ میں شائع شدہ نیوز رپورٹ میں بیان کیے گئے پاکستانی سفارتی دستاویز کے مندرجات کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ آیا وہ در حقیقت ایک اصل دستاویز ہے کہ نہیں۔
تاہم اس ضمن میں انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں امریکا کے کردار کی تردید کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی کیبل کے مندرجات میں رپورٹ کیے گئے تبصروں کو درست مان بھی لیا جائے تو وہ کہیں نہیں دکھاتے کہ امریکا پاکستان میں لیڈرشپ کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی پوزیشن رکھتا تھا۔
United States confirmed that documents published on Asad Majeed and Donald Lu conversation on Imran Khan was kind of accurate but made it clear that United States was not involved in any conspiracy. He confirmed United States was concerned of Imran Khan visit of Moscow and his… pic.twitter.com/njc6EHrhZq
— Jahanzaib Ali (@JazzyARY) August 9, 2023
ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا نے سرکاری اور نجی سطح پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ماسکو پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جو عین یوکرین پر روسی حملہ کے دن وقوع پذیر ہوا تھا۔ ’اس حوالے سے ہم نے اپنی تشویش کا بہت واضح طور پر اظہار کردیا تھا۔‘
میتھیو ملر کے مطابق امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اس بات کی تردید کرچکے ہیں کہ امریکا پر پاکستان کی قیادت کے بارے میں اندرونی فیصلوں میں مداخلت کے الزامات جھوٹے ہیں، جیسا کہ امریکا بھی کہتا رہا ہے کہ یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔
مزید پڑھیں
’اگر آپ سفارتی کیبل (سائفر) کے مندرجات اور تبصروں کو ایک پس منظر میں رکھتے ہوئے دیکھیں تو میرے خیال میں جو پتا چلتا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا وزیر اعظم (عمران خان) کی پالیسی چوائس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ یہ کسی بھی طریقہ سے ظاہر نہیں کرتا کہ امریکی حکومت پاکستانی قیادت کے حوالے سے اپنی کسی ترجیح کا اظہار کررہی ہو۔‘
دی انٹرسیپٹ میں شائع ہونیوالی رپورٹ اور پاکستانی سفارتی کیبل کے مندرجات کو صحیح تسلیم کرنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی دستاویز کی سچائی پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔
’جو میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر اس رپورٹ میں بیان کردہ تمام تبصرے صد فیصد درست بھی ہیں، جو مجھے نہیں معلوم کہ سو فیصد درست ہیں، تو اس میں کہیں بھی امریکی محکمہ خارجہ کے نمائندے پاکستان میں قیادت کے تعین کے حوالے سے کوئی پوزیشن لیتے نظر آتے ہیں۔‘