پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں اختیار سماعت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے 3 اگست کو معاملہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کو ریمانڈ بیک کر دیا تھا، جس فیصلے کے خلاف اپیل پر آج چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ٹرائل عدالت کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔ تاہم غلطیوں کے باوجود ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں آج مداخلت نہیں کریں گے۔ مذکورہ ریمارکس پر پاکستان مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز شریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ
’جب چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ سنا ہی دیا ہے تو کل ہائیکورٹ کے انتظار کی بھی کیا ضرورت ہے؟‘
دلچسپ صورتحال
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ مقدمے میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کر رہی ہے اور کل پھر اس مقدمے کی سماعت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد دن ایک بجے سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت ہو گی۔
مزید پڑھیں
دوسری طرف عمران خان نے سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مقدمات کو لاہور یا پشاور ہائی کورٹ منتقل کر دیا جائے۔
لیکن جب ایک مقدمے پر اپیل کی سماعت ہائی کورٹ کر رہی ہے اور اسی مقدمے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا ہے تو ایسے میں کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت متاثر ہو سکتی ہے؟ ماہرین قانون اس پر مختلف آرا رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس کے ریمارکس کا زیرالتوا اپیل پر اثر پڑ سکتا ہے، عرفان قادر
اسی نقطے پر جب ہم نے سینیئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے ریمارکس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتوا اپیل پر اثر پڑ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کل دیکھنا پڑے گا کہ سپریم کورٹ اس مقدمے میں کس طرح سے کارروائی کرتی ہے۔
چیف جسٹس کو اس طرح کے ریمارکس نہیں دینے چاہیے تھے
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ تو مقدمہ ریمانڈ بیک کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کر رہی تھی نہ کہ سزا کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت۔ سپریم کورٹ کے اس طرح کے ریمارکس سے ہائی کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کی کارروائی پر اثر پڑ سکتا ہے اور چیف جسٹس کو اس طرح کے ریمارکس بالکل بھی نہیں دینے چاہیے تھے۔
ہائیکورٹ میں زیرالتوا مقدمے میں چیف جسٹس کے ریمارکس عدالتی روایات کے منافی ہیں، شوکت صدیقی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس کے ریمارکس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمے کی کارروائی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہائی کورٹ میں زیرالتوا مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس طرح کے ریمارکس عدالتی روایات کے مُنافی ہيں۔