جب سے بھارت کا خلائی مشن ’چندریان 3‘ چاند پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے، یار لوگوں نے خلائی تحقیق پر مامور اپنے ادارے پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیں، طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، جتنے منہ اتنی باتیں۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا، ہم کیوں نہ پہنچ سکے؟؟ سارے مباحث اسی ایک سوال کے گرد گھوم رہے ہیں؟
آپ اس بنیادی سوال کے جوابات مختلف انداز میں سن اور پڑھ چکے ہوں گے، اس لیے ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔ اس بات کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں مذکورہ بالا سوال سے جڑتا ہے۔
کہتے ہیں کہ ترقی کرنے والے، آگے بڑھنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موقع اور رکاوٹ کے درمیان فرق کیا ہوتا ہے؟ اور پھر وہ ان دونوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ضلع احمد آباد میں شانی شنگناپور‘ نام کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں کے باسی عجیب ہیں، وہ اپنے گھروں کے دروازوں میں کواڑ نہیں لگاتے، صرف دہلیزیں ہوتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وہ اپنی زندگی اور جائیداد کو بالکل محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہاں کے لوگ کچھ اور ہی قصے، کہانیاں سناتے ہیں تاہم میرا خیال کچھ اور ہے۔ اپنی خیال آرائی سے پہلے مقامی لوگوں کی بتاتا ہوں۔
اس گاؤں میں قریباً 300 گھرہوں گے، لیکن کسی ایک گھر کا بھی دروازہ نہیں ہے۔ گاؤں والے اور اردگرد کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ قدیم زمانے کے ایک بزرگ کی روح گاؤں والوں کی حفاظت کررہی ہے۔ ان کے بقول ’بابا نے کہا تھا کہ اپنے گھروں کے دروازے نہ رکھنا کیونکہ دروازوں سے گھر والوں پر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں‘۔
گاؤں والے کہتے ہیں کہ جب بھی کسی نے گھر کی بیرونی دیوار میں دروازہ نصب کیا، وہ کسی نہ کسی آفت کا شکار ہوا۔ یوں گاؤں والوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ ہندو بزرگ واقعتاً دروازے پسند نہیں کرتے۔
گاؤں والے بزرگ کی بابت بتاتے ہیں کہ وہ سینکڑوں سال پہلے یہاں رہتے تھے، انہوں نے بڑی تپسیا کی تھی۔ کئی کئی دن تپسیا کی سختیاں جھیلا کرتے تھے۔ اسی حالت میں ان کی موت واقع ہوگئی، برگد کا ایک پیڑ عین اس جگہ اْگ آیا جہاں بابا نے آخری سانس لی تھی۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ بابا کی روح اس درخت میں ہے۔
اسی ریاست میں ایک دوسرا گاؤں ’داول مالک‘ بھی اسی قسم کی روایت کا حامل ہے، یہاں ایک مسلمان بزرگ کا مزار ہے، انہی کے نام پر گاؤں آباد ہوا۔ اس گاؤں میں بھی لوگ گھروں کے دروازے نہیں رکھتے۔ یہاں کے باسی بھی سمجھتے ہیں کہ مزار والے بزرگ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
ان کی بیان کردہ کہانیوں کے مطابق کچھ چوروں نے اس گاؤں میں گھس کر چوری کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں عجیب وغریب بیماریوں نے جکڑلیا۔ اس کے بعد کسی چور کو اس گاؤں میں گھسنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
ان دونوں دیہاتوں میں لوگ گھر کے مرکزی دروازے پر کپڑے کے پردے ضرور لٹکاتے ہیں۔ ایسا عورتوں کے اصرار پر کیا گیا۔ دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مرد اندرگھر میں آنے سے پہلے محض ایک بار اونچی آوازمیں پکارتا اور ساتھ ہی اندر گھس آتا تھا۔ اس پر عورتیں معترض ہوئیں۔
شانی شنگناپورکو بعض لوگ قصبہ کہتے ہیں جبکہ پہلی نظر میں گاؤں ہی نظرآتا ہے۔ سائیکلوں پر سوار لوگ ادھر ادھر آجا رہے ہیں، گھاس کے میدانوں میں گائیں گھوم پھر رہی ہیں۔ تاہم اس قصبہ یا گاؤں میں کوئی دکان، ہوٹل ایسا نہیں ہے جس کا دروازہ ہو۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ جب سے لوگوں نے دروازوں کو کواڑلگانا چھوڑے ہیں، کبھی چوری چکاری نہیں ہوئی۔ حالانکہ بھارت کی یہ ریاست جرائم کے حوالے سے بہت بدنام ہے۔
یہ علاقہ جن پولیس افسران کے دائرہ کارمیں آتا ہے، وہ یقیناً بہت خوش ہوتے ہوں گے کہ انہیں مفت میں ایک پرامن گاؤں میسر آگیا۔ قریباً 20 برس قبل یہاں ایک پولیس سٹیشن قائم ہوا، تاحال گاؤں والوں کی طرف سے چوری کی چند ایک وارداتوں ہی کی رپورٹ لکھوائی گئی۔
دس، بارہ برس قبل جب یہاں ایک بینک کی شاخ کھولی گئی تو عجب پیچیدگی پیدا ہوئی۔ گاؤں والوں کی طرف سے اپنی روایت کے مطابق بینک کو بھی دروازہ نہ لگانے کو کہا گیا، وہ چاہتے تھے کہ بینک کے اندر بھی کسی چیز کو تالہ نہ لگایا جائے۔ اس پر پولیس والے خاصے پریشان ہوئے کہ بھاری بھرکم رقوم کیسے کھلی چھوڑی جاسکتی ہیں۔ یہ تو کھلی دعوت تھی چوروں کے لیے۔
بینک انتظامیہ کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ گاؤں والوں کی بات مانے یا پولیس والوں کی۔ بالآخر درمیان کا ایک راستہ نکالا گیا، مکمل دروازے لگائے جائیں گے لیکن انہیں تالہ نہیں لگے گا۔ بینک والوں نے ازراہ احتیاط اوقات کار کے اختتام پر کیش دوسرے گاؤں میں بینک کی شاخ میں رکھوانا اور اگلی صبح واپس منگوانا شروع کردیا۔
ایک اندازے کے مطابق اس عجیب وغریب گاؤں کا نظارہ کرنے کے لیے روزانہ 40 ہزار سے زائد لوگ آتے ہیں۔ اس قدر بڑی تعداد میں لوگ آئیں تو علاقے میں سیاحتی انفراسٹرکچر پوری آب و تاب سے قائم ہوتا ہے۔ سیاحوں کے لیے ہوٹل اور دکانیں کھلتی ہیں، نت نئے کاروبار پھلتے پھولتے ہیں۔
اس گاؤں میں بھی ایسا ہی ہوا ورنہ یہ سارا علاقہ غربت اور مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ برسوں پہلے گاؤں کے دانش مندوں نے اپنے گاؤں کو منفرد گاؤں بنانے کا منصوبہ مکمل جزئیات کے ساتھ تیار کیا ہوگا۔ انہوں نے مسائل اور مواقع کے درمیان فرق کو سمجھا ہوگا، اور پھر ان سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔
بھارتی معاشرے میں مذہبی سیاحت ویسے بھی مفت میں شروع ہوجاتی ہے۔ برسوں پہلے ایک بھارتی فلم دیکھی تھی، اس میں ہیرو اپنے ہاں مذہبی توہمات اور روایات کا کچا چٹھا مختلف انداز میں کھولتا ہے۔ وہ ایک درخت کے نیچے ایک عام سا پتھر رکھتا ہے، اس پر پھولوں کی ایک مالا رکھ کر چند قدم دور جاکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں زائرین کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں۔ پتھر پر پیسے نچھاور ہونے لگتے ہیں۔ پیسوں کا ایک ڈھیر لگ جاتا ہے۔
شانی شنگناپور میں بغیر دروازوں کے گھروں سے جڑی کہانیوں نے اس گاؤں کی مذہبی سیاحت کو روز افزوں کیا اور کرتی ہی چلی جارہی ہیں۔ اس قسم کی سیاحت کے بارے میں جو بھی نقطہ نظر رکھا جائے، بہرحال یہاں کے لوگوں نے مواقع پیدا کیے اور ان سے خوب فائدہ اٹھایا۔
ہم پاکستانی چاند پر جانے کے لیے مچلنے سے پہلے اپنے ہاں بھی مواقع پیدا کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا سیکھ لیں تو بہتر نہ ہوگا؟