اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے، سابق موساد چیف

جمعرات 7 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیلی کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک سابق سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے میں نسل پرستی کا نظام نافذ کر رہا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے موساد کے سابق چیف تامیر پاردو نے کہا کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں دو افراد کا فیصلہ دو قانونی نظاموں کے تحت کیا جاتا ہے اسے نسل پرست ریاست کہا جاتا ہے۔

اس بیان کے بعد تامیر پاردو بھی ان سابق اسرائیلی سینئر افسران میں شامل ہو گئے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کا فلسطینیوں سے سلوک  نسل پرستی کے مترادف ہے۔ اس سے قبل چند سابق اسرائیلی رہنما، سفارت کار اور سکیورٹی افسران خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست بننے کا خطرہ ہے لیکن پاردو کا لحجہ زیادہ سخت اور دو ٹوک تھا۔

2011ء سے 2016ء تک موساد کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والے پاردو نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ آیا موساد کی سربراہی کے دوران بھی ان کے یہی خیالات ہوا کرتے تھے۔ تاہم اب وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک کا اہم ترین مسئلہ فلسطین ہے جس کی اہمیت ایران کے جوہری پروگرام کے اس مسئلے سے بھی زیادہ ہے جسے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کے وجود کو خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

پاردو کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغربی کنارے کو ضم کرنے کی حامی انتہائی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت اس علاقے پر اسرائیل کی گرفت مضبوط کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔ چند اسرائیلی وزراء نے مغربی کنارے میں آباد کاروں کی تعداد کو دُگنا کرنے کا وعدہ کیا ہے جن کی تعداد اس وقت پانچ لاکھ ہے۔

پاردو نے کہا کہ اسرائیلی شہری غزہ کی پٹی کے ناکہ بندی والے علاقے کے علاوہ جہاں چاہیں گاڑی میں سوار ہوکرجا سکتے ہیں لیکن فلسطینی یہ آزادی فلسطینیوں کو حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں نظام کے بارے میں ان کے خیالات شدت پسندی پر مبنی نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔

پاردو کا کہنا تھا کہ بطور موساد چیف انہوں نے نیتن یاہو کو بار بار سمجھایا کہ انہیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کریں یا پھر یہودیوں کے لیے ریاست کی تباہی کا خطرہ مول لیں۔

واضح رہے اسرائیلیوں کے مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں داخل ہونے پر پابندی عائد ہے لیکن وہ پورے اسرائیل اور مغربی کنارے کے اس 60 فیصد حصے میں گاڑی لے جا سکتے ہیں جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ فلسطینیوں کو ملک میں داخل ہونے کے لیے اسرائیل سے اجازت درکار ہوتی ہے اور انہیں مغربی کنارے کے اندر جانے کے لیے اکثر فوجی چوکیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

اسرائیل ہمیشہ سے نسل پرستی کے کسی بھی الزام کو مسترد کرتا چلا آیا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ اس کے اپنے عرب شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اسرائیل نے 1990ء کی دہائی میں امن عمل کے عروج پر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کو محدود خودمختاری دی جو کہ مغربی کنارے میں قائم ہے اور 2005 میں غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی کنارہ متنازع علاقہ ہے اور اس کے مستقبل کا تعین مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔

ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ عربوں کی تعداد اسرائیل میں یہودیوں کی نسبت زیادہ ہو جائے گی۔ عربوں کی تعداد ان علاقوں میں بھی زیادہ ہو جائے گی جن پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلسل قبضہ اسرائیل کو ایک ایک مشکل انتخاب پر مجبور کر سکتا ہے یعنی کہ آزادی سے محروم فلسطینیوں پر یہودی اقلیت کی حکمرانی کو باضابطہ بنانا یا انہیں ووٹ کا حق دینا اور فلسطین میں یہودی وطن کے صہیونی خواب کو ممکنہ طور پر ختم کرنا۔

پاردو گزشتہ سال کے دوران نیتن یاہو اورعدالتی اصلاحات سے متعلق حکومتی اقدامات کے سخت ناقد کے طور پر سامنے آئے ہیں جن کے بقول اس طرح کے اقدامات اسرائیل کو آمریت کی جانب لے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا  ہے کہ اسرائیل کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی کوئی سرحد نہ ہواس کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp