دنیا کا کوئی ایسا کونا نہیں جہاں پاکستانی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات انجام نہ دے رہے ہوں، یہ لوگ ملک کے بلاتنخواہ سفیر ہیں جو اپنا روزگار کمانے کے ساتھ ملک کی نمائندگی میں بھی مصروف ہیں۔
روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک جانے والوں میں پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد خلیجی ممالک میں ہے، جن میں زیادہ تر ڈرائیور، سیکیورٹی گارڈ یا تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد ہیں۔ یہ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہٹ کرخاص ہنر بھی رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود یہ اپنی ساری زندگی ایک ہی نوکری میں گزار کر واپس وطن آ جاتے ہیں۔ اگر ان کے پاس اپنی صلاحیت کے حساب سے سرٹیفیکیٹس موجود ہوں تو لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں کے لیے نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔
یہ سرٹیفیکیٹ ہے کیا اور اس کو حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے ترجمان پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرزعدنان پراچہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
نوجوانوں کو آگے بڑھانے کی سوچ لے کر نکلے ہیں، عدنان پراچہ
عدنان پراچہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم ایک سوچ لے کر آئے ہیں جو پاکستان میں موجود 55 سے 60 فیصد نوجوانوں کے لیے مفید ہے، بیرون ممالک خصوصاً خلیجی ملکوں میں کام کرنے والے وہ پاکستانی نوجوان جن کے پاس ہنر تو ہے مگر سرٹیفکیٹ نہیں ہے وہ اس سوچ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
عدنان پراچہ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک روایت قائم ہے کہ ایک بچہ جب کوئی بھی تکنیکی کام سیکھنے کے لیے کسی کے پاس آتا ہے تو وہ کچھ عرصے بعد اس کام میں ماہر ہو جاتا ہے، مگر اس ہنر کا سرٹیفکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پاس آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہاکہ اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اب وہ سرکاری و نجی اداروں اورگرینویچ یونیورسٹی کے ساتھ مل کرسرٹیفیکشن پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت کوئی بھی ہنر مند شخص سرٹیفکیٹ حاصل کر سکے گا جس کے بعد وہ اپنا روزگارباعزت طریقے سے حاصل کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی ہنر مند شخص کو اپنی آن لائن رجسٹریشن کے بعد اپنے قریبی مرکزکا انتخاب کرنا پڑےگا، جہاں سے ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد حکومت پاکستان اور ٹیکنیکل بورڈز کی اجازت سے انہیں ایک سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا جس کا مطلب ہو گا کہ وہ شخص اس ہنرمیں سرٹیفائڈ ہے۔ اس سرٹیفیکیٹ سے نوجوانوں کوپاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک میں بھی روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔
یہ سرٹیفیکیٹ کام کیسے کرے گا؟
عدنان پراچہ کے مطابق سرٹیفائڈ افراد کا ڈیٹا ان کے پاس آجائے گا اور انہیں اندازہ ہوجائے گا کہ کن ممالک میں کس قسم کی افرادی قوت کی ضرورت ہے، ان کا ادارہ اس ڈیٹا کی مدد سے سرٹیفائڈ افراد کو متعلقہ ممالک میں بھیجے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب چیزیں بہت بدل چکی ہیں، ایک بار یہ عمل شروع ہونے کے بعد مڈل مین یا ایجنٹ کا کام ختم ہو جائے گا۔
جن کے پاس کوئی ہنر نہیں انکے لیے یہ سرٹیفیکیٹ کتنا مفید ہے؟
عدنان پراچہ نے بتایا کہ شروع میں شٹرنگ کارپینٹر، میسن، پلمبر سمیت 12 مختلف پیشوں کے سرٹیفیکیٹس پر کام کیا جائے گا، جن لوگوں کے پاس کوئی ہنر نہیں اوروہ بیرون ممالک جانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کا انگریزی سمیت دیگرزبانوں کا ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ وہ بیرون ممالک تو جائیں لیکن انہیں ان کی قابلیت کے مطابق روزگار بھی مل سکے۔
بیرون ملک ہنر مند افراد کے لیے یہ سرٹیفیکیٹ کتنا اہم ہے؟
ملک سے باہر کئی سال سے رہنے والے وہ پاکستانی جن کے پاس ہنر تو ہے لیکن سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ان کی صلاحیت کے مطابق کام میسر نہیں، ان کے بارے میں عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ وہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں قائم ان کے مراکز میں ٹیسٹ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طریقہ وہی ہوگا، آن لائن رجسٹریشن اور اس کے بعد ایک دن کا ٹیسٹ ہوگا، ٹیسٹ پاس ہونے کی صورت میں ایک سرٹیفیکیٹ انہیں جاری کر دیا جائے گا، جس کی بنیاد پر وہ خلیجی ممالک اور یورپ میں اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرکے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں۔
سرٹیفیکیٹ کے حصول میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟
ایک سوال کے جواب میں عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ آن لائن رجسٹریشن اور فیس کی ادائیگی کے بعد ٹیسٹ دینے کی خواہش رکھنے والوں کو قریبی سینٹر میں بلایا جائے گا اور وہاں ٹیسٹ ہوگا، اس تمام عمل میں 8 سے 10 دن لگیں گے اور 10 دن کے بعد آپ کے پاس ایک سرٹیفیکیٹ ہوگا جو یہ ثابت کرے گا کہ آپ ہنرمند پاکستانی ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اس ٹیسٹ کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ پاکستانی جو ہنر رکھنے کے باوجود ترقی نہیں کر پارہے، ان کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھولے جائیں، ہمارا مقصد پاکستانیوں کو آگے بڑھانا ہے، ہنرمند ہونے کے باوجود ہم ڈرائیور یا سیکیورٹی گارڈ کی نوکری سے آگے نہیں بڑھ رہے۔ اس مسئلے کا حل اب نکل آئے گا‘۔