آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے کے لیے کوہالہ کے بعد معروف ترین مقام آزاد پتن کا ہے۔ آزاد کشمیر کے سب سے بڑے ضلع پونچھ کو پاکستان سے ملانے کے لیے یہ معروف ترین شاہراہ ہے جہاں راولپنڈی، اسلام آباد سے آنے والے مسافر پنڈی کہوٹہ سے ہوتے ہوئے آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں لینڈ سلائیڈنگ نے مسافروں کا سفر انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سڑک کو ریاست آزاد کشمیر کے شہری ’عذاب پتن‘ قرار دیتے ہیں۔
ایک مقام پر 3 پل کیوں بنائے گئے؟
اس مقام پر دریائے جہلم کو عبور کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً 3 پل تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے پہلا پل سنہ 1992 کے سیلاب میں آدھے سے زیادہ بہہ گیا تھا، جس کے بعد آمدو رفت کو بحال رکھنے کے لیے فوری طور پر رسوں والا پل لگایا گیا۔ سنہ 2006 میں پرانے پل سے کچھ اوپر نیا پل تعمیر کیا گیا جو آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بننے کے بعد پانی کے نیچے آگیا ہے۔ ان دنوں ڈیم میں پانی کی سطح کچھ کم ہے اس لیے تینوں پل بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ آزاد پتن کے مقام پر دہائیوں قبل چلتے پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے کا سروے ہوا تھا۔ لیکن انتظامی نا اہلی اور مستقبل پر نظر نہ رکھنے کے باعث ایک ہی بار اونچائی پر پل تعمیر کرنے کی بجائے باری باری 3 پل تعمیر کیے گئے جن میں سے 2 اب پانی کے نیچے ہوتے ہیں۔
آزاد پتن کی بجائے ’عذاب پتن‘ کیوں؟
انتظامی نااہلی اور مستقبل سے بے خبری کا معاملہ صرف ان 3پلوں تک محدود نہیں بلکہ لب دریا پنجاب کی سرحد پر واقع سڑک کا سروے بھی ایسی جگہ سے کیا گیا جہاں مسلسل لینڈ سلائیڈنگ سے نہ صرف کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو چکا۔ بلکہ بار بار تعمیر کیے جانے کے باعث عوامی بجٹ کا کثیر حصہ اس پر خرچ ہو چکا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ نئے بننے والے آزاد پتن ہائیڈرو پاو پراجیکٹ میں بھی اس علاقے کا سروے کر کے سڑک کو دریا سے دور نہیں لے جایا گیا بلکہ کچھ بلندی پر نئی سڑک تعمیر کر دی گئی ہے جو ڈیم میں پانی بھرنے کے بعد کئی جگہوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ کا نشانہ بھی ہے۔
شاید، آنے والے کل سے بے خبری یا جان بوجھ کر کی گئیں ایسی تعمیرات ٹھیکیداروں کی مسلسل کمائی اور حکام کی رشوت کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔