فیض آباد دھرنا کیس: کیا ریویو میں فیصلہ بدل سکتا ہے؟

ہفتہ 23 ستمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں فروری 2019 میں ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جن فوجی اہلکاروں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے یہ فیصلہ بینچ کے جونیئر رکن کے طور پر تحریر کیا تھا جبکہ سینیئر رکن جسٹس مشیر عالم تھے۔ اکثریت مبصرین کا کہنا ہے کہ یہی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کی بنیاد بنا۔

اب 28 ستمبر کو اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے جس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ کرے گا۔

کیا ریویو میں فیصلہ بدل سکتا ہے؟

سپریم کورٹ کے موجودہ رولز کے مطابق نظرثانی درخواست کا اسکوپ بہت محدود ہوتا ہے اور نظر ثانی درخواست کی سماعت وہی ججز کر سکتے ہیں جنہوں نے پہلے والی درخواست کی سماعت کی ہو۔ جسٹس مشیر عالم چونکہ ریٹائر ہو چکے ہیں اس لیے وہ اس بینچ میں شامل نہیں البتہ بینچ 2 رکنی سے 3 رکنی بن چکا ہے لیکن نظرثانی درخواست میں درخواست گزار صرف اس بات کی نشاندہی کر سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے پہلے والے فیصلے میں نقائص کیا تھے، اس کے علاوہ درخواست گزار نظر ثانی درخواست میں نئی وجوہات شامل نہیں کر سکتا اور عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ نظر ثانی درخواستیں اکثر مسترد ہو جاتی ہیں اور اصل فیصلہ ہی برقرار رہتا ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس میں درخواست گزار کون ہیں؟

فیض آباد دھرنا کیس میں فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف، شیخ رشید احمد، اعجاز الحق، انٹیلی جنس بیورو، وزارت دفاع، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پیمرا اور ایم کیو ایم سمیت 8 فریقین نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں۔

فیصلے سے پاک فوج کے مورال پر اثر پڑا ہے

وزارت دفاع کی نظر ثانی درخواست جو اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور نے تیار کی تھی، اس میں عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ فیصلے میں افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف جو ریمارکس دیے گئے ہیں ان کو حذف کیا جائے کیونکہ اس فیصلے سے افواج پاکستان کے مورال پر اثر پڑا ہے۔ وزارت دفاع کی نظر ثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے کوئی ایسا ثبوت نہیں جس کی بناء پر یہ کہا گیا ہے کہ افواج پاکستان یا آئی ایس آئی 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنا، 2018 انتخابات کے مخصوص نتائج یا میڈیا سینسرشپ میں ملوث ہے۔

انٹیلی جنس ادارے آئی بی نے بھی اپنی نظرثانی درخواست میں یہی موقف اپنایا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے میں ان کی سیاست میں مداخلت اور غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں جو بات کی گئی ہے اس سے ان کا قومی تاثر ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنی نظر ثانی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جہاں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے 2014 کے دھرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے گویا 2014 کا دھرنا غیرقانونی اور بنیادی حقوق کے خلاف تھا اور اس کا مقصد صرف ایک تشہیر تھا۔ پی ٹی آئی نے اپنے سیکریٹری جنرل ارشد داد کے ذریعے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ ان کا سنہ 2017 فیض آباد دھرنے سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ان کے بارے میں ریمارکس کو حذف کیا جائے۔

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں کیا کہا گیا تھا؟

اس فیصلے کا مرکزی نقطہ جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور افواج پاکستان اپنے حلف کی خلاف ورزی کر کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ اس کے علاوہ اس فیصلے میں کہا گیا کہ احتجاج ایک جمہوری حق ہے لیکن اس وقت تک کہ جب دوسرے لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔

احتجاج کرنے والے وہ افراد جو لوگوں کا راستہ روکتے ہیں، ان کی املاک پر حملے کرتے ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں اس فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اگر مذکورہ جماعت انتخابی قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے، تمام سیاسی جماعتیں اپنے فنڈز کے ذرائع بتانے کی پابند ہیں، جب 12 مئی 2007 کو کراچی میں قتل و غارت کرنے والوں کو سزا نہ دی گئی تو اس سے دوسروں کو حوصلہ ملا۔

کوئی شخص اگر کوئی ایسا فتوٰی جاری کرتا ہے جس سے کسی کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے تو ایسے شخص کے خلاف فوجداری، انسداد دہشت گردی اور الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے قانونی کاروانی کی جائے۔

لائسنس یافتہ نشریاتی اداروں کی نشریات روکے جانے کے خلاف پیمرا کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر پیمرا نے ایسا کسی کے کہنے پر کیا ہے تو اس کو بھی رپورٹ کیا جائے۔ الیکٹرانک ذرائع سے نفرت اور شر انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف پیکا 2016 کے تحت کارروائی کی جائے۔

آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کا مینڈیٹ نہیں کہ وہ کسی نشریاتی ادارے کی نشریات روکیں یا اخبارات کی تقسیم روکی جائے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسا قانون بنایا جائے جس میں خفیہ اداروں کے اختیارات متعین کیے جائیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دھرنا جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار وضع کریں کیونکہ امن و امان قائم کرنا عدالت کی ذمے داری نہیں۔ انتہا پسندی اور نفرت پھیلانے والوں پر نظر رکھی جائے اور قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے۔

نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد پل پر کئی روز دھرنا دے کر شہری زندگی کو مفلوج کر دیا تھا۔ پولیس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں بعد میں ایک معاہدے کے تحت تحریک لبیک پاکستان نے دھرنا اٹھا لیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ایران امریکا سے معاہدہ کرنے کے لیے ’بے تاب‘، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

کرکٹ کے بعد گائیکی کا جادو، یونس خان کی گانا گاتے ویڈیو وائرل

روبلاکس نے صارف بچوں پر اہم پابندی عائد کردی

’ہم پاکستانی ہیں اور پاک آرمی ہم میں سے ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کا قائداعظم یونیورسٹی کا دورہ

شاہزیب خانزادہ کے بعد طلعت حسین کو بھی ہراسانی کا سامنا، انہوں نے کیا کارروائی کی؟

ویڈیو

مردوں کےعالمی دن پر خواتین کیا سوچتی ہیں، کیا کہتی ہیں؟

کوئٹہ کے مقبول ترین روایتی کلچوں کا سفر تندور کی دھیمی آنچ سے دلوں تک

27ویں ترمیم نے چیخیں نکلوا دیں، فیض حمید کیس میں بڑا کھڑاک

کالم / تجزیہ

پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟

تحریک انصاف کو نارمل زندگی کی طرف کیسے لایا جائے؟

فواد چوہدری کی سیز فائر مہم اور اڈیالہ جیل کا بھڑکتا الاؤ