سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے فیض آباد دھرنے کے معاملہ پر ذمہ داروں کے تعین کے لیے انکوائری کمیشن کے قیام کی تجویز دیدی، اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن کی تشکیل پر عدالت کو 2 دن میں آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔
چیف جسٹس کے کہنے پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ دیا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے وزارت دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں، کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی، انہوں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن بھی پڑھ کرسنایا۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی، اٹارنی جنرل بولے؛ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، چیف جسٹس بولے؛ ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس ساری مشق سے اصل چیز گم شدہ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی او آرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے۔
مزید پڑھیں
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی وفاقی حکومت نے تشکیل دی ہے، جس پر جسٹس اظہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی اور اس ضمن میں وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی تھی کہ نہیں، اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا تو کمیٹی تشکیل کا یہ نوٹیفکیشن کاغذ کا ٹکڑا ہے۔
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی پھر غیر قانونی ہے، آپ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کیوں نہیں کروائی، فرض کیا ابصار عالم کو کمیٹی بلاتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتے تو آپ کیا کریں گے۔
چیف جسٹس کا موقف تھا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس اختیارات ہوتے ہیں، ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا۔
اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے ہیں کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعہ کی انکوائری کرنی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی کینڈا جا کر فساد کر کے واپس پاکستان آسکتا ہے، کیا یہ حق صرف کینیڈا سے آنے والوں کو حاصل ہے، انہیں کون لے کر آیا تھا، کینیڈا سے سبق سیکھیں انہوں نے ایک شخص کے قتل پر بڑے ملک سے ٹکر لے لی۔
’کینیڈا واپس چلے گئے تو بتائیں جس کام کے لیے آئے تھے کیا وہ حل ہو گیا، اسلام امن کا دین ہے وہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں، کیا وہ اسلام کی بات کر رہے تھے تو کیا سب ان سے ڈر جاتے، ایک مسلمان کو ڈرنا نہیں چاہیے۔۔۔ فساد فی الارض کی گنجائش نہیں ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت نے ایک ’لینڈ مارک‘ فیصلہ دیا تھا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ میرے مطابق تو وہ ایک سادہ سا فیصلہ تھا، اس وقت اچھی یا بری جیسی بھی حکومت تھی عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی، کوئی غلط قانون بن گیا تو اسپیکر کو خط لکھ دیتے یہ آپ سے غلطی ہو گئی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایک مہینے کا وقت نہیں دے سکتی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ایک ہفتے میں مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کردیں گے، لیکن چیف جسٹس کی جانب سے ایک روزہ مہلت کے عندیہ پر اٹارنی جنرل نے پرسوں تک عدالت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرادی۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پیمرا کا کوئی نمائندہ عدالت میں موجود ہے، جس پر پیمرا کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اور لیگل ہیڈ وکلا سیاہ کوٹ پہنے پیش ہوئے، جس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ وکیل نہ ہونے کے باوجود یہ کس طرح پہن کر عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں، ڈی جی آپریشنز پیمرا نے بتایا کہ انہوں نے کل بھی یہی کوٹ پہنا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پیمرا کے وکیل سے دریافت کیا کہ انہوں نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا جواب پڑھا ہے، حافظ احسان ایڈووکیٹ کی جانب سے نفی میں جواب ملنے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے موجودہ چیئرمین پیمرا کو فوری طور پر عدالت طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔
چیئرمین پیمرا کی عدالت عظمٰی میں ہنگامی پیشی
سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کرنے پر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ ہنگامی طور پر عدالت پہنچے، چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیئرمین ابصار عالم نے ایک بیان حلفی دیا ہے، ہمیں تعجب ہوا آپ کے وکیل نے کہا وہ بیان پڑھا نہیں، جس پر چیئرمین پیمرا کا کہنا تھا کہ ابصار عالم نے جو کہا وہ انہی کے ساتھ ہوا ہو گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سلیم بیگ سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ یہ کبھی نہیں ہوا، جس پر انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا انہیں ذاتی طور پر علم ہے کہ بیان حلفی میں کیا کہا گیا ہے، سلیم بیگ بولے؛ مجھے کچھ خاص پتہ نہیں۔
عدالتی استفسار پر سلیم بیگ نے بتایا کہ وہ 2018 سے چیئرمین پیمرا ہیں اور ان کی تعیناتی وزارت اطلاعات سے عمل میں لائی گئی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں اس لیے طلب کیا گیا ہے کیونکہ پیمرا کے وکیل نے جو کہا وہ زیب نہیں دیتا۔ چیف جسٹس بولے؛ یہ آپ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ نے پتہ کرنا ہوتا ہے کہ عدالت میں کیا آیا ہے۔
چیف جسٹس کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 19 پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ یہ آرٹیکل خود بتاتا ہے کہ کیا معاملات آزادی اظہار رائے میں شامل نہیں، کوئی چینل اگر جلاؤ گھیراؤ پر بھڑکائے تو وہ آزادی اظہار نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل کسی کا گلا دبا دیں مگر یہ آزادی اظہار رائے نہیں۔
چیف جسٹس چیئرمین پیمرا پر برس پڑے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی چیئرمین پیمرا پر برس پڑے، بولے؛ سلیم بیگ آپ کا نام فیض آباد دھرنا کیس میں شامل ہے، آپ نے غلط بیانی کیوں کی کہ آپ کی تعیناتی بعد میں ہوئی، کیا آپ کو فیصلہ پسند نہیں تھا، آپ فیصلے پر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت بھی ہو سکتی ہے۔
’چیئرمین پیمرا صاحب اس فیصلے کے مطابق آپ نے بھی کچھ کرنا تھا، پیمرا نے جو 110 صفحات کی عملدرآمد رپورٹ دی اس میں عدالتی احکامات سے متعلق کہاں لکھا ہے۔۔۔کینٹونمنٹ علاقوں میں چیلنز کی نشریات روکنے سے متعلق کہاں کارروائی کا لکھا ہے، آپ کس چیز کے چیئرمین ہیں، ہر ادارہ مذاق بن کے رہ گیا ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ یہاں ہر بندہ کرسی سے اترنے کے بعد کہتا ہے مجھ پر دباؤ تھا، سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے، بتائیں نشریات بند کرنے والے کیبل آپریٹرز کے خلاف کیا کارروائی کی، عدالتی استفسار پر چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ چیئرمین پیمرا کی مدت ملازمت 4 سال ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر وہ ابھی تک کیسے بیٹھے ہیں۔
چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کا جواب تھا کہ انہیں دوبارہ تعینات کیا گیا تھا، چیف جسٹس نے پوچھا؛ آپ کی عمر کتنی ہے، جس پر چیئرمین پیمرا نے کہا کہ اس وقت عمر 63 سال ہے، ان کا یہ جواب بھی چیف جسٹس کو کھل گیا، بولے؛ اس وقت کا کیا مطلب ہے، آج کی عمر ہی پوچھی ہے کل کی نہیں، اسکول میں کوئی ایسا جواب دے تو استاد کونے میں کھڑا کر دے گا۔
چیف جسٹس کی برہمی پر پیمرا کے وکیل نے اپنا وکالت نامہ واپس لے لیا
چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذرا سا ہم نے آپ کو دبایا آپ نے کہا ہم عملدرآمد کریں گے، نظرثانی درخواست کس کے کہنے پر دائر کی، سب نے دائر کی تو آپ نے سوچا ہم بھی کر دیتے ہیں
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک مرتبہ پھر چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو لمبی زندگی دے،مگر جانا ہم نے وہیں ہے، آپ ہمت پکڑیں بتادیں نظرثانی میں جانے کا کس نے کہا تھا، سلیم بیگ نے بتایا کہ پیمرا میں فیصلہ ہوا تھا نظرثانی میں جائیں گے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ پیمرا میں منظوری ہوئی تو وہ کہاں ہے، سلیم بیگ کا جواب تھا کہ منظوری تحریری نہیں زبانی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زبانی فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے، چیئرمین پیمرا سلیم بیگ بولے کہ ان سے نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی غلطی ہوئی، چیف جسٹس نے ڈائریکٹر لا پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ تو سچ نہیں بول رہے، آپ ہی بتا دیں نظرثانی کا کس نے کہا تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون پڑھیں کیا پیمرا میں زبانی فیصلہ ہو سکتا، ہم آج آپ کو آپ کا قانون پڑھائیں گے، عدالتی ہدایت پر ڈائریکٹر لا پیمرا نے پیمرا قانون کا سیکشن فائیو پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ نے یہ پڑھا ہوتا تو یہ نہ کہتے کہ تحریری فیصلہ کا کہیں نہیں لکھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ اٹارنی جنرل صاحب چیئرمین پیمرا کہہ رہے ہیں نظر ثانی کا پتہ ہی نہیں،کیسے دائر ہوئی، کوئی پراسرار قوتیں تھیں جنہوں نے نظرثانی درخواست دائر کروائی، اگر نظرثانی کا تحریری فیصلہ نہیں ہوا تو آپ کی نظرثانی درخواست وجود ہی نہیں رکھتی، آپ تو پھر صرف ہمارا وقت ضائع کرنے آئے تھے۔
آپ دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق نہ چلائیں، چیف جسٹس
چیئرمین پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 3 حکومتوں میں آپ چیئرمین پیمرا رہ چکے ہیں اور تینوں حکومتیں آپ سے خوش نہیں، نظرثانی درخواست پر آپ کے دستخط ہیں، لکھا ہوا ہے آپ اپنے اختیارات کا استعمال کر کے اس کی منظوری دی، آپ دوسروں کے کندھوں پررکھ کر بندوق نہ چلائیں، ذمہ داری لیں یہ نظرثانی آپ نے دائر کی تھی۔
سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کی پیشی
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو بھی خط لکھا، ہر وزیر اعظم کرسی سے اتر کر کہتا ہے میں مجبور تھا، جو ابصار عالم نے کیا وہ ہر پبلک آفس ہولڈر کو کرنا چاہیے، انہوں نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی بتایا۔
چیف جسٹس نے ایم بار پھر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر دباؤ نہیں تھا تو اب آپ پر قانون کا دباؤ ہے، ہمارے حتمی آرڈر سے پہلے کچھ اور کہنا چاہتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ گیم تو نہ کھیلیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ آپ کے پیچھے کھڑی ہے۔
چیف جسٹس نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو روسٹرم پر طلب کرکے کہا کہ آپ نے بیان حلفی میں کچھ اور بات لکھی ،متفرق درخواست میں کچھ اور کہہ رہے ہیں، آپ نے کچھ میڈیا میں موجود عناصر کی بات کی، میڈیا کے اندر کچھ ایسے عناصر تھے تو وہ آپ کے ماتحت تھے، کیا آپ پر میڈیا کے اندر سے بھی اٹیک ہو رہا تھا۔
ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا کے اندر اور باہر سے بھی حملہ ہو رہا تھا، کیبل آپریٹرز کے پاس بھی انٹیلجنس اداروں کے لوگ جاتے تھے، ہم نے ایک دھمکی آمیز کال ٹیپ کی،وزیر اعظم اور آرمی چیف کو بھیجی، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے اس دھمکی دینے والے کی شناخت کی، جس پر ابصار عالم نے کہا کہ وہ اس کی ٹھیک سے شناخت نہیں کر سکے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ابصار عالم یہ سنجیدہ معاملہ اس وقت اعلی حکام کے نوٹس میں لائے تھے، المیہ یہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت کسی نے اس کا جواب نہیں دیا، ابصار عالم نے کہا کہ ان کے خلاف مختلف درخواستیں بھی دائر ہوئیں، انہوں نے جو بھی کیا اور جس صورتحال سے انہیں گزرنا پڑا وہ ان کا سرمایہ ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے خلاف درخواستیں کیوں دائر ہوئیں تھیں، ابصار عالم نے بتایا کہ ان کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا اور وہ درخواستیں مجھ پر تلوار کی طرح زیر التوا رکھی گئیں، فیض آباد دھرنے کے فوری بعد لاہور ہائیکورٹ نے ایک درخواست پر مجھے فارغ کردیاتھا، چیف جسٹس نے انہیں زبانی باتوں کے بجائے فیصلہ دکھانے کا کہا۔
ابصار عالم نے کہا کہ وہ تو اس معاملے کو چلانے میں دلچسپی رکھتے تھے، عدالت نے کہا تو سچ ریکارڈ پرلا رہے ہیں، چیف جسٹس بولے؛ ابصار صاحب یہ نہ کریں یا تو خاموش رہیں اور گھر بیٹھیں ،ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ جب انگلیاں اٹھائیں گے کہ مجھے عدالت نے نہیں بلایا تو بات عدالت پر آئے گی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں،وہ سامنے ہوں گے تو دیکھیں گے، ہم آپ کے معاملہ پر سوموٹو نہیں لے سکتے، کیا آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر آپ کو نکالا گیا، جس پر ابصار عالم نے کہا جی ہاں! چیف جسٹس نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جن پر الزامات عائد کیے کیا کل انکوائری کمیشن میں بھی انہیں دہرائیں گے، جن پر آپ الزامات لگا رہے ہیں انہیں بھی وہاں بلایا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس بولے؛ کسی کی پیٹھ پیچھے بات نہیں ہوتی آپ ان کے سامنے یہی بات کریں گے، جس پر سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کلمہ پڑھ کر کہہ دیا انکوائری کمیشن میں بھی بیان دیں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ابصار عالم آپ نے اس پورے نظام پر سوالات اٹھائے، آپ کے بعد آنے والے کہتے ہیں ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا،جس پر ابصار عالم بولے؛ یہ خوش قسمت ہیں۔
سابق سربراہ آئی ایس آئی لیفٹنٹ جنرل فیض حمید کا تذکرہ
ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ جب پیمرا نے چینل 92 کو بند کیا تواس پرفیض حمید نے کال کی، عدالتی استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ چینل تشدد پھیلا رہا تھا اس لیے کھولنا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے وضاحت چاہی کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں مسلح افواج کا ایک افسر ملک میں تشدد چاہتا تھا، جس پر ابصار عالم بولے؛ یہ کہتے ہوئے دل لہو ہوتا ہے مگر وہ یہی چاہتے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ابصار عالم سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھ آپ کے جانشین کھڑے ہیں اںہوں نے نظرثانی کیوں دائر کی، جس پر ابصار عالم بولے؛ یہ جانشین نہیں بلکہ مجھ سے سینئر ہیں جانشین کم عمر ہوتا ہے، جواباً چیف جسٹس بولے؛ میری اردو اتنی اچھی نہیں بتائیں انہوں نے نظرثانی کیوں دائر کی۔
ابصار عالم نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی درخواست جب دائر ہوئی تو اس وقت فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی تھے، اپنے تجربے سے بتا رہا ہوں انہیں یا وزارت اطلاعات نے یا پھر کسی انٹیلیجنس ادارے نے کہا ہو گا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر چیئرمین پیمرا سلیم بیگ سے پوچھا کہ بتائیں پھر دونوں میں سے کس نے کہاتھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گھر میں سے تو کسی نے فرمائش نہیں کی کہ نظرثانی درخواست دائر کریں، آپ ہمیں نہیں بتاتے تو پھر آپ بھی انکوائری کمیشن میں جائیں گے، وہ شاید آپ سے سچ اگلوا لیں۔
شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت کو بتایا کہ شیخ رشید سے رابطہ نہیں ہورہا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ وہ چلے سے واپس آ گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کیخلاف شیخ رشید کی جانب سے دائر نظر ثانی کی درخواست واپس لینے کی استدعا پرچیف جسٹس قاضی فائزعیسی بولے؛ شیخ رشید آپ سے رابطے میں نہیں تو درخواست واپس لینے کا کس نے کہا۔
اعجازالحق کے وکیل سے مکالمہ
اعجاز الحق کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس بولے؛ آپ کے موکل کے والد چیف آف آرمی اسٹاف تھے ، جس پر وکیل نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ وہ چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان تھے، چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ وہ انہیں صدرپاکستان نہیں مانتے، جس پر وکیل کا موقف تھا کہ ایسا آئین پاکستان میں لکھا ہوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ یہ واحد آدمی ہیں جن کا نام آئین میں آیا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایک سابق آرمی چیف کا بیٹا کہہ رہا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی، اعجاز الحق کی نظرثانی درخواست میں یہی لکھا ہے۔
الیکشن کمیشن کی عدالتی فیصلے پرعملدرآمد رپورٹ
عدالتی استفسار پر الیکشن کمیشن نے وکیل قمر افضل نے بتایا کہ دھرنا فیصلے کے وقت الیکشن کمیشن کے سربراہ سردار رضا اس وقت چیف الیکشن کمشنر تھے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ تو ایک آزاد ادارہ ہیں، کیا الیکشن کمیشن نے ایک فضول نظرثانی دائر کی جو اب واپس لینی ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے عملدرآمد رپورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آپ نے عملدرآمد رپورٹ میں جو کچھ لکھا وہ فیصلے سے پہلے کا ہے، ہمارے فیصلے کے بعد کیا اقدامات لیے وہ بتائیں، وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ کمیشن نے اس معاملہ پر کمیٹی بنائی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تو کارروائی کرنی تھی کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں تھی، چیف جسٹس بولے؛ آپ نے صرف یہ بتانا تھا کہ ایک جماعت بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہو سکتی تھی یا نہیں، جس شخص کے نام پر تحریک لبیک رجسٹرڈ ہوئی اسے کمیٹی میں بلایا یا نہیں، ہاں یا نہ میں جواب دیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسے نہیں بلکہ پارٹی کے چیئرمین کو بلایا تھا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ شکر ہے سچ نکل آیا، ایک بیرون ملک رہنے والا شخص پارٹی کیوں رجسٹر کروائے گا، ایک ہی رات میں پارٹی کیسے رجسٹر ہو جاتی ہے، کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں اوپر سے حکم آیا تھا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ نے تو اپنی عقل و دانش استعمال کی ہو گی، ہماری آنکھوں میں دھول مت جھونکیں ،دکھائیں پارٹی رجسٹریشن کے ساتھ دو ہزار لوگوں کے شناختی کارڈ کہاں لگے ہیں، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم نے پارٹی کی فنڈنگ سے متعلق چھان بین کی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کا شہری نہ ہونے والا کیا جماعت رجسٹرڈ کروا سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ الیکشن ایکٹ 2017 کے تابع ہیں تو بتائیں اس پر عمل کیا، ہمارے فیصلے کو بھول جائیں اپنا قانون دیکھ کر بتائیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا قانون صرف طاقچوں میں رکھنے کے لیے ہیں کیا اس پر عمل نہیں کرنا، یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں آپ نے قانون پر عمل کیا ہے۔
تحریک لبیک کو ہونے والی فنڈنگ کا بھی ذکر
سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تحریک لبیک کو ہونے والی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں، ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فنڈز بیرون ملک سے آئے تھے جو کرنسی تبدیل کر کے ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں بنا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اگر کوئی 1820 روپے دینا چاہتا ہے تو ہم اسے یہ نہیں کہہ سکتے کہ پورے 1800 دو۔ وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے۔
اعجاز الحق کی نظر ثانی درخواست خارج
سپریم کورٹ نے اعجازالحق کی حد تک نظرثانی درخواست نمٹا دی، اعجاز الحق نے آئی ایس آئی رپورٹ میں ذکر ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اعجازالحق نے بیان حلفی دیا ہے جس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ درخواست نمٹائی جاتی ہے۔
ابصار عالم کی انکوائری کمیشن کی کارروائی میڈیا پر چلانے کی استدعا
دوران سماعت سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے انکوائری کمیشن کی کارروائی میڈیا پر چلانے کی استدعا کر دی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ میڈیا پر آپ کا اپنا اینگل ہوتا ہے۔ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک ہونا ہوتی ہے۔
ابصار عالم نے موقف اختیار کیا کہ ایبٹ آباد کمیشن اور حامد میر کمیشن کی رپورٹس اب تک پبلک نہیں ہوئیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جو کیس ہمارے سامنے نہیں اس کی بات نا کریں۔
سپریم کورٹ نے تیمور وحید ملک کی نظرثانی کی درخواست بھی خارج کر دی۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 نومبر تک ملتوی کر دی۔