پاکستانی خلاباز نمیرا سلیم 5 اکتوبر 2023 سے اپنے خلائی سفر کا آغاز کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ نمیرا سلیم خلا میں سفر کرنے والی پہلی پاکستانی ہیں، ورجن گلاکٹیک کی بانی خلانورد نے 29 نومبر 2022 کو ان کی نشست نامزد کی اور انہیں سفر کا پہلا موقع خلا باز 019 کے طور پر فراہم کیا جائے گا۔ ورجن گلاکٹیک ہولڈنگز نے باضابطہ طور پر بتایا ہے کہ نمیرا سلیم کا یہ سفر 5 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والا ہے۔
گلاکٹیک 04 کے مشن میں 3 نجی خلا باز شامل ہیں جو خلا میں تلاش اور مہم جوئی کے لیے اپنے مشترکہ جوش و جذبے سے متحد ہو کر اس منصوبے میں متنوع پس منظر اور ثقافتوں کا حصہ ڈالیں گے۔ خلابازوں میں سے ایک جسے خلاباز 017 کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، ان کا تعلق امریکا سے ہے۔ دوسرے خلاباز 018 کا تعلق برطانیہ سے ہے جب کہ خلاباز 019 اس مشن میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں۔
جنوبی فرانس میں آباد پاکستانی خاندان سے تعلق رکھنے والی نمیرا سلیم خلا میں سفر کرنے والی پہلی پاکستانی ہیں۔ 2006 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں باضابطہ طور پر’پہلی پاکستانی خلاباز‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ 2007 میں نمیرا نے پاکستان کے لیے سیاحت کی اعزازی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
نمیرا سلیم اپریل 2007 میں قطب شمالی اور جنوری 2008 میں قطب جنوبی تک پہنچنے والی پہلی پاکستانی ہیں۔ انہیں تاریخی فرسٹ ایورسٹ اسکائی ڈائیو 2008 کے دوران مانٹ ایورسٹ پر اسکائی ڈائیو کرنے والی پہلی ایشیائی اور پہلی پاکستانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
2011 میں صدر پاکستان نے نمیرا سلیم کو ملک کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ تمغہ امتیاز سے نوازا۔ انہیں بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں پر ستمبر 2013 میں لندن میں پاکستان پاور 100 کی طرف سے پاور ایوارڈ سے نوازا گیا۔ نمیرا سلیم پاکستان پاور 100 کی ’ویمن پاور‘ میں بھی شامل رہی ہیں۔
نمیرا سلیم نے عرب نیوز کو ٹیلیفونک انٹرویو میں بتایا کہ ’جنوری 2006 میں، میں نے ورجن گلیکٹک کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے اور اپنا ٹکٹ خریدا لیکن اس وقت کون جانتا تھا کہ اس خواب کو پورا کرنے میں 17 سال لگیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گزشتہ ہفتے میں نے پاکستان کا دورہ کیا اور باضابطہ طور پر سبز پرچم وصول کیا جو میں خلائی سفر کے دوران اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی، سبز پرچم کو اونچا لہرانا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہوگا۔‘
نمیرا سلیم نے بتایا کہ انہوں نے 2006 میں ٹکٹ کے لیے 2 لاکھ ڈالر ادا کیے تھے، حالانکہ اسی پرواز کی موجودہ قیمت ساڑھے 4 لاکھ ڈالر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تربیتی سیشن نیو میکسیکو کے ایک نجی خلائی اسٹیشن پر اپنے ساتھی امریکی اور برطانوی مسافروں کے ساتھ شیڈول تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے مشن میں مدار کو توڑنا اور فضا میں دوبارہ داخل ہونا شامل ہے۔ اس طرح کی پروازوں میں عام طور پر زمین پر راکٹ لانچ کرنے کے ساتھ 9 سے 11 منٹ لگتے ہیں۔ تاہم ہماری پرواز مختلف ہے کیونکہ ہمارے خلائی جہاز کو چھوڑنے سے پہلے مدر شپ کے ذریعہ 50 ہزار فٹ تک لے جایا جائے گا، جس سے راکٹ موٹر انجن کو اس اونچائی سے خلا میں پہنچنے کے لیے مدد ملے گی۔
خلا کے شوق کے بارے میں پوچھے جانے پر نمیرا سلیم نے کہا کہ یہ ان کا بچپن کا خواب تھا کیونکہ ان کے والد نے انہیں قطب ستارے سے متعارف کرایا تھا اور انہیں شمالی آسمان میں ستاروں کے بارے میں سکھایا تھا۔
مزید پڑھیں
نمیرا سلیم کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ خلا میرے ڈی این اے میں ہے، جب میں بہت چھوٹی تھی تو میں اپنے والدین سے کہا کرتی تھی کہ میں کھلونوں کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہتی۔ میں خلا میں جانا چاہتی تھی اور جب میں 14 سال کی ہوئی تو میرے والد نے میری پہلی دوربین خریدی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے نئے خلائی ممالک کی پیروی کرنی چاہیے جو انسانی خلائی پرواز کے مواقع پیدا کرنے کے لیے تجارتی خلائی منصوبے شروع کر رہے ہیں۔
نمیرا سلیم نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے نئے خلائی دور اور خلا کی کمرشلائزیشن کو اپنانے میں متاثر کن پیش رفت کی ہے، دونوں نے اس دور کے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے اور لوگوں کو ان کے فوائد پہنچائے ہیں۔
مستقبل کے منصوبوں بارے پوچھے جانے پر نمیرا سلیم نے یونیورسٹی کے طالب علموں کے تعاون سے 3 یونٹ کیوب سیٹلائٹ کی تیاری کے ایک منصوبے کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس اقدام کی قیادت ان کے غیر منافع بخش ادارے اسپیس ٹرسٹ نے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’زیرو جی 2030‘ کے نام سے جانا جانے والا یہ منصوبہ خلا میں پہلا امن مشن ہے جہاں ہم طالب علموں کے بنائے ہوئے اس سیٹلائٹ میں امن کے پیغامات لے کر جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کینیا کی یونیورسٹی آف نیروبی یونیورسٹی اور امریکا کی ایریزونا یونیورسٹی کے تعاون سے ہم امن کے پیغامات لے کر جائیں گے۔