چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ ہم اگر ہائیکورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کرا سکتے تو پھر ہمیں کرسی کو Good by کہہ دینا چاہیے۔ ہم ہائیکورٹ کے تقدس پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ملک اِدھر سے اُدھر ہو جائے تو بھی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔
پشاور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی سٹی پشاور کے سابق صدر عرفان سلیم کی بھائی کی درخواست پر سماعت کی۔ تھری ایم پی او کے تحت گرفتار عرفان سلیم کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے اتارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالتی آرڈر کو ڈپٹی کمشنر نے پڑھ لیا ہے۔ انہیں جواب دیا گیا کہ جی ڈپٹی کمشنر نے آرڈر پڑھ لیا ہے۔ چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے پوچھا کہ عدالتی احکامات کے باجود درخواست گزار کو کیوں گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہوگا تو پھر ہمیں کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت کے ڈویژن بینچ اور چیف جسٹس کا آرڈر ہے اس کے باوجود گرفتار کیا جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور پولیس اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرتے۔
ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے عدالتی احکامات کا پتا نہیں تھا، ہم نے نئے ایم پی او آرڈر میں عرفان سلیم کو گرفتار کیا۔ ایس ایس پی آپریشنز نے لیٹر بھیجا تھا کہ امن وامان کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے اس وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے واضح احکامات جاری کیے تھے، پولیس اور سیشن ججز کو بھی مراسلہ ارسال کیا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے عدالتی احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ڈپٹی کمشنر کو بھی کسی نے ڈکٹیٹ کیا اور اس پر عمل کرتے ہوئے گرفتار کر لیا کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو مثال بنائیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں، یہ خود بھی اپنے پاؤں پر نہیں کھڑا ہے۔ ہمیں یہ یقین دہانی کون کرائے گا کہ آئندہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس عدالت آ کر یقین دہائی کرائیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی تو اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ درخواست گزار کو یہیں رہا کریں، ان کے خلاف جتنے آرڈر ہوئے ہیں انہیں ختم کیا جاتا ہے۔ عدالت کے حکم پر عرفان سلیم کمرہ عدالت سے ہی رہا کر دیا گیا۔
عدالت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی عدالت آکر یقین دہانی کرائیں کہ آئندہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔