محکمہ داخلہ کے اعلیٰ افسر نے تاسف سے فائل بند کرتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا کہ ’بارڈ پر اسمگلنگ بہت زیادہ ہوگئی ہے اس لیے روک تھام کےلیے کوئی طریقہ اپنانا ہوگا‘، افسر نے فائل دوبارہ کھولتے ہوئے کہا کہ ہر سال افغانستان کو چین، جاپان اور دبئی سے ہزاروں کی تعداد میں جو ٹائرز ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے جاتے ہیں اتنی گاڑیاں تو افغانستان میں موجود ہی نہیں۔
پشاور سیکریٹریٹ میں محکمہ داخلہ کے اس اعلیٰ افسر کے ساتھ میری نشست کوایک ہفتہ گزرا تھا کہ 3 اکتوبر کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی 212 مصنوعات کی افغانستان جانے پر پابندی عائد کردی۔
فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ 212 اقسام کی اشیا اس وقت کراچی پورٹ پر موجود ہیں تو انہیں افغانستان بھیجا جائے لیکن ان سامان سے لدے جو جہاز ابھی تک لنگر انداز نہیں ہوئے انہیں واپس بھیجا جائے۔
ایف بی آر کے دستاویزات میں سب سے زیادہ 106 اقسام کی چیزیں جن میں ٹیلی ویژن سیٹ، ایئر کنڈیشنر، ٹیبل لیمپ، کراکری، چمچ اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیا شامل ہیں کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذرایعے درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔
مزید پڑھیں
ایف بی آر کے دستاویزات کے مطابق 20 اقسام کی چاکلیٹ، 42 اقسام کے جوتے، 2 طرح کی مشینری، 9 اقسام کے کمبل،25 اقسام کے چھوٹے بڑے کپڑوں، 19 اقسام کے خصوصی کپڑے، 6 اقسام کی چائے کی پتی ، ٹائر، مختلف قسم کے صابن، شیمپو کے 14 برانڈز اور تھرماس کی درآمد پر بھی پابندی لگادی گئی۔ وزرات تجارت کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس سامان سے پاکستان کو گزشتہ مالی سال کے دوران 185 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے نقصان کیسے ہوا؟
مالی سال 2021-22 کے دوران ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے افغانستان نے 4 ارب ایک کروڑ 60 لاکھ امریکی ڈالرز کی مصنوعات درآمد کیں۔ ایف بی آر کے مطابق صرف ایک سال بعد یعنی 2022-23 میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے 6 ارب 71 کروڑ امریکی ڈالرز کی مصنوعات افغانستان نے دنیا کی مختلف ممالک سے درآمد کیں صرف ایک سال کے دوران افغانستان کی درآمد ات میں ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ وزرات تجارت کے لیے حیران کن تھا اس سے متعلق وزرات تجارت نے ایف بی آر کے ذریعے ایک خصوصی رپورٹ طلب کی تو پتا چلا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کا سامان جو افغانستان پہنچا وہ واپس بغیر ڈیوٹی ادا کیے پاکستان اسمگل ہوا یا ان میں سے بیشتر ٹرک و کنٹینرز پاکستان میں خالی کیے گئے۔
بارڈر پوائنٹس پر صرف ان گاڑیوں کی اینٹری کی گئی اور یہ سامان بغیر ڈیوٹی ادا کیے پاکستان کی مختلف مارکیٹوں میں پہنچایا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں زیادہ تر لوگ سبز چائے یا قہوہ پیتے ہیں لیکن افغانستان جتنی چائے ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد کرتا ہے ان اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کالی چائے کی پتی درآمد کرنے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ اسی طرح جتنی کراکری درآمد کی جاتی تھی وہ افغانستان کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی۔
رپورٹ کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے بڑی تعداد میں ایئر کنڈیشنرز اور ٹی وی سیٹس بھی درآمد کیے گئے جو کہ اسمگل ہوکر خیبرپختونخوا، لاہور، کوئٹہ اور ملک کی دیگر مارکیٹوں تک پہنچایا گیا۔ اگر یہ سامان عام تجارت کے ذریعے پاکستان پہنچایا جاتا تو اس پر صرف گزشتہ مالی سال کے دوران 185 ارب روپے کے ٹیکسز کی ادائیگی ہوتی۔
نگراں وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے اکتوبر کے اوائل میں پریس کانفرنس کے دوران بارڈر پر اسمگلنگ کی تصدیق بھی کی ہے۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے آنے والے سامان پر وزارت تجارت نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار 10 فیصد ڈیویلپمنٹ ڈیوٹی بھی عائد کردی ہے اس کے علاوہ درآمد کرنےوالے تاجروں کو اب پاکستان میں سامان کے برابر بینک گارنٹی بھی دینی ہوگی اور کسٹمز کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ کسی بھی مقام پر شک پڑنے پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی گاڑیوں کی چیکنگ بھی کرسکتے ہیں۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی تاریخ
سنہ 1950 اور 60 کی دہائی میں جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مسلسل الزامات کی وجہ سے کشیدہ تھے تو افغانستان کو جانے والی سامان کی پاکستانی راستوں کے ذریعے اکثر بندش ہوتی تھی، افغانستان دنیاکے ان چند ممالک میں سے ہے جن کی کوئی سمندری حدود نہیں اس لیے ان کی درآمدات کے لیے پاکستان کے بندرگاہ اور راستوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ 7 سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سنہ 1965 میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا تجارتی معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان بغیر کسی ٹیکس کے افغانستان کی درآمدات کے لیے اپنی سڑکیں اور کراچی بندرگاہ پیش کرے گا۔ یہ عمل تواتر کے ساتھ جاری رہا ۔
کراچی سے بندرگاہ کے ذریعے جو سامان آتا تھا وہ طورخم اور چمن بارڈز کے ذریعے افغانستان داخل ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستانی مصنوعات بھی بغیر کوئی ٹیکس ادا کیے افغانستان برآمد کیے جاتے تھے سنہ 2011 میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس معاہدے میں جدت لائی گئی اور سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایک اہم تاریخی معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کےلیے پورٹ قاسم اور گوادر بندرگاہ بھی پیش کردی اس کے علاوہ واہگہ بارڈر کے ذریعے بھی افغان تجارت ہوگی۔
نئے معاہدے کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ صرف طورخم اور چمن تک محدود نہیں ہوگی بلکہ اس میں خیبرپختونخوا کے خرلاچی، گورسل، شہدانوڈھنڈ، انگور اڈا اور غلام خان کے ٹرانزٹ پوائنٹس کو بھی شامل کیا گیا تاہم اس معاہدے میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔