پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ یہ فائدہ حاصل رہا ہے کہ اس کے چاہنے والے جیت کی امید سے زیادہ یہ امید لگاتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی میدان میں بھرپور مقابلہ کریں، لڑیں اور مخالف ٹیم کو مشکل سے دوچار کریں، اگر یہ سب ہوجانے کے باوجود شکست ہوجائے تو شائقین کرکٹ تب بھی سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’تم جیتو یا ہارو، سنو، ہمیں تم سے پیار ہے‘۔
لیکن جب قومی ٹیم شکست خوردہ ذہن کے ساتھ میدان میں اترے اور خوف کے عالم میں کھیلے اور ایسی بدترین شکست سے دوچار ہوجائے تو پھر یہ سوچنا خام خیالی ہوگی کہ کرکٹ کے چاہنے والے انہیں سراہیں گے، نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ تب حساب ہوگا، کڑا احتساب ہوگا اور سوال ہوگا کہ آپ نے آخر یہ کیا کردیا؟
افغانستان کی ٹیم جسے ہم نے ماضی میں 7 میں سے 7 ایک روزہ مقابلوں میں شکست دی تھی کل اسی افغانستان نے ہمیں چاروں شانے چت کردیا۔ کل افغانستان نے یقیناً بہت اچھا کھیلا اور یہ ٹیم جیت کی حقدار بھی تھی مگر یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی گنا خراب کھیلا۔
مزید پڑھیں
میں نے ماضی میں کبھی پاکستانی بولرز کو اتنی خراب بولنگ کرواتے ہوئے نہیں دیکھا، کبھی کسی کپتان کو اس قدر شکست خوردہ نہیں دیکھا، کبھی نہیں دیکھا کہ ٹیم کے پاس مخالف کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے لیے کوئی پلان ہی نہ ہو۔
یاد رہے کہ اس میچ میں پاکستان کا جیتنا لازم تھا اور اس شکست کے بعد سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے اب پاکستان کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں، مگر ہاں، مشکل ہی سہی، ایک امکان ہے، لیکن کیا ہمارے کھلاڑی اور ہمارے کپتان اس پر عمل کرسکیں گے، اس بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔
بات اب سیدھی اور صاف ہے، اگر اگلے مرحلے میں جانا ہے تو دلیر بننا ہوگا، ہمت دکھانی ہوگی، خود پر اعتماد کرنا ہوگا اور اس سوچ کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا کہ آپ کے مقابلے میں اب کوئی ٹیم کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
قومی ٹیم نے اس ورلڈ کپ میں اب تک 5 میچ کھیلے ہیں جن میں سے 3 میں شکست اور صرف 2 کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، اور اب اسے 4 مقابلے کھیلنے ہیں جن میں 3 مقابلے مضبوط ٹیموں سے ہیں، یعنی جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور ایک میچ نسبتاً کمزور ٹیم بنگلہ دیش ہے۔ بنگلہ دیش کے بارے میں نسبتاً کمزور اس لیے کہا کہ افغانستان کے خلاف نتیجہ دیکھ کر اب کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔
تو سب سے پہلے پاکستان کو یہ چاروں میچ جیتنے ہیں۔ یہ تو ابتدائی شرط ہے، لیکن اگر اچھے مارجن سے جیت لیے جائیں تو رن ریٹ کی بہتری کا بھی امکان ہے جو پاکستان کے لیے مزید فائدے مند ہوسکتا ہے۔ ان 4 فتوحات کے بعد پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کے پوائنٹس 12 ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا ہونے کے بعد بھی پاکستان کا سیمی فائنل تک پہنچنا یقینی نہیں بلکہ اس کے بعد ایک بار پھر اگر، مگر کا روایتی کھیل شروع ہوجائے گا۔
انڈیا اور نیوزی لینڈ وہ ٹیمیں ہیں جن کا سیمی فائنل تک پہنچنا اب تقریباً یقینی ہے، اس لیے ان کے لیے اپنی دعاؤں کا ضیاع کرنا کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہوگا، مگر جن ٹیمیں کی شکست کے لیے دعا کی جاسکتی ہے وہ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ ہیں۔
ان میں سے جنوبی افریقہ کی فارم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ بھی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرجائے گی، لیکن پاکستانیوں کو جن ٹیموں کے لیے دعا کرنی چاہیے وہ آسٹریلیا اور انگلیںڈ کی ٹیمیں ہیں۔
ان دونوں ٹیموں نے اب تک 4، 4 میچ کھیلے ہیں، جن میں سے آسٹریلیا کو 2 اور انگلیںڈ کو صرف 1 کامیابی ملی ہے۔ اب اگر یہ دونوں ٹیمیں اپنے 5 میچوں میں سے 3 میچ ہار جائیں تو سمجھیے ہمارا کام ہوجائے گا کیونکہ ایسی صورت میں آسٹریلیا کے کُل پوائنٹس 8 ہوجائیں گے اور انگلینڈ کے 6۔
یہاں تک تو سب اچھا لگ رہا ہے لیکن اس وقت پاکستان کا بولنگ اٹیک تاریخ کا کمزور ترین بولنگ اٹیک ہے، جن کے خلاف اسی ورلڈ کپ میں ایک مرتبہ 344 اور ایک مرتبہ 368 رنز بن چکے ہیں، بھارت نے 191 رنز کا ہدف 31ویں اوور میں حاصل کرلیا جبکہ 283 رنز کا ہدف افغانستان جیسی کمزور ٹیم نے محض 2 وکٹوں کے نقصان پر ایک اوور پہلے ہی حاصل کرلیا، لہٰذا یہ سوچ بنتی ہے کہ ایسے اٹیک کے خلاف جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور اگلینڈ کے بلے باز کیسے خاموش رہیں گے؟ کیا قومی ٹیم واقعی اپنے بقیہ میچ جیت سکتی ہے؟
میں ابھی تک بس یہی سوچ رہا ہوں، لیکن آپ کیا سوچ رہے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا، لیکن اگر آپ واقعی پاکستانی کھلاڑیوں پر بھروسہ کررہے ہیں تو پھر دعا بھی کیجیے اور دل سے کیجیے کہ کرکٹ کا کھیل کب کروٹ تبدیل کرلے کچھ معلوم نہیں۔