ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن کچھ حلقوں میں اب بھی یہی بحث ہے کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہے اور نواز شریف کی راہ ہموار کرنے کے لیے پولیٹیکل انجینئرنگ کی جا رہی ہے ورنہ ان کا اتنا شاندار استقبال نہ ہوتا۔
ہر بار انتخابات سے قبل یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اب کی بار الیکشن صاف، شفاف اور منصفانہ ہوں گے اور کوئی مداخلت نہیں ہوگی لیکن اس کے برعکس کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں اور الیکشن سلیکشن میں بدل جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پولیٹیکل انجیئرنگ اور سلیکشن کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کی طویل تاریخ ہے جس میں سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان بھی اسی کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آتے اور جاتے رہے ہیں۔
2018میں بھی سیاسی انجینئرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنے۔ انتخابات سے قبل عمران خان کے لیے باقاعدہ مہم چلائی گئی، اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ، 126 دن کا دھرنا، استعفیٰ کا مطالبہ۔ ہر اقدام میں ان کا ساتھ دینے کے لیے سر توڑ کوششیں کی گئیں، پھر الیکٹیبلز کو ان کی جھولی میں ڈالا گیا، فوج کی جانب سے لا محدود مدد فراہم کی گئی، عوامی حمایت بھی ان کے ساتھ تھی۔ غرض ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی گئی اور عمران خان کو فائدہ پہنچایا گیا۔
پھر جب انہوں نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جن کی مدد سے انہوں نے اقتدار سنبھالا وہی انہیں نکال باہر کریں گے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی انجینئرنگ کے نقصانات کو بھگتا۔ ملک کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔اور جب کشتی ہچکولے کھانے لگی تو پرانے مسافروں سے امید باندھی گئی اور ان کو ہی دعوت دی گئی کہ وہ دوبارہ اقتدار سنبھالیں اور بھنور میں پھنسے ہوئے ملک کو نکالیں۔ اور نواز شریف کو آخری امید کے طور پر وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ واپس بلایا۔ ہیرو ولن میں بدل گئے اور ولن کو تخت پر لا بٹھایا گیا۔ اب نواز شریف کو رلانے والے خود رو رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی بطور وزیراعظم واپسی ہوئی ہے، سزا دینے والے جج ہی ا ن کی حفاظت کے ضامن بنے۔ لیکن یہ سب ایسے نہیں ہوا بلکہ ان کو کاندھا فراہم کیا گیا۔ انہی حلقوں کی جانب سے جنہوں نے ان سےاقتدار کی کرسی چھینی تھی ۔کیونکہ وہ نواز شریف کو ہی آخری امید سمجھتے ہیں اور ایسا کاندھا فراہم کیا گیا کہ پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتیں شکوہ کناں ہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ نواز شریف حکومت حاصل کرنے کے بعد ایسا کیا کریں گے جو 16 ماہ کی اتحادی حکومت نہ کر پائی؟ کیاوہ لانے والوں کی امیدوں پر پورا اتریں گے؟
سیاسی تاریخ اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھا جائے تو نواز شریف کے لیے آنے والا وقت آسان نہیں ہوگا۔ کیو نکہ پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت نے بد ترین مثال قائم کی۔ اتحادی حکومت کے کیے گئے اقدامات عمران خان حکومت سے مختلف نہ تھے ۔ اپنی ضد پوری کرنے کے نتیجے میں اتنی بری حکمرانی کی مثال قائم کی کہ عوام رو پڑی۔ پی ڈی ایم کیا نعرے لے کر آئی تھی اور کیا کر کے گئی۔ آئین ، سیاست، ریاست اور معاشرت بد قسمتی سے ایک بھی محاذ ایسا نہیں جس پر وہ دعویٰ کر سکیں کہ انہوں نے ریلیف دیا ہے۔ ملک اور عوام کو کہاں سے کہاں لے آئے یہ سب کے سامنے ہے۔
لیکن پھر بھی نواز شریف کو آخری امید سمجھ کر موقع دیا جارہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح عوامی حمایت کی بجائے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے ہی۔ اب جو کچھ نواز شریف کے لیے ہو رہا ہے کیا مستقبل میں یہی کچھ عمران خان کے لیے بھی ہو گا ؟ کیا ولن پھر سے ہیرو بن جائے گا؟نواز شریف واپس آرہے ہیں تو عمران خان کے لیے بھی بازی پلٹ سکتی ہے؟ اگر آج نواز شریف پاکستان کی آخری امید ہیں تو کل کو یہی جال عمران خان کے تیار ہو گا اور وہ ایک بار پھر نواز شریف کی جگہ لے لیںگے ۔ ہو سکتا ہے 2028میں بھی ہم ایسا ہی کچھ دیکھیں گے عمران خان کے لیے۔
لیکن فی الحال دیکھنا یہ ہے نواز شریف اب کی بار کیا ڈکٹیشن لیتے ہیں اور کیا اب کی بار مدت پوری کر پائیں گے ۔اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا تو ہمارے پاس صرف پچھتاوے رہ جائیں گے۔ پچھتاؤں کے سوا کچھ نہیں۔