امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن 10 نومبر کو کو پانچویں بھارت-امریکا 2+2 وزارتی ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے بھارت کا دورہ کریں گے، اس دورے کا مقصد دفاعی تعاون میں اضافہ اور خطے میں چین کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال دوطرفہ بات چیت میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کا اعلیٰ سطحی جائزہ لیا جائے گا۔ 2+2 ڈائیلاگ کے علاوہ امریکی وزرا اپنے بھارتی ہم منصبوں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ دو طرفہ تعاون کے فروغ کے حوالے سے خصوصی ملاقاتیں بھی کریں گے۔
یہ ڈائیلاگ کتنا اہم ہے؟
امریکی اور بھارتی حکام کے درمیان اس ڈائیلاگ کو بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، یہ بات چیت مضبوط شراکت داری کے علاوہ دونوں ملکوں کے آزاد اور کھلے ہند بحرالکاہل کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کو عملہ جامہ پہنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ حماس اسرائیل جنگ کے آغاز کے بعد سے امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے دفاع کے لیے سفارتی اور عسکری لحاظ سے ہرممکن کوششوں میں مصروف ہے مگر اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحی حکمت عملی میں چین سے نمٹنا اب بھی سرفہرست ہے۔
سینئر امریکی حکام کن ممالک کا دورہ کر رہے ہیں؟
اس حکمت عملی کے پیش نظر بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ ترین قومی سلامتی کے اہلکار رواں ہفتے ہند بحرالکاہل کا سفر کر رہے ہیں، امریکی میڈیا کے مطابق انٹونی بلنکن، لائیڈ آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل سی کیو براؤن سبھی شراکت داروں اور اتحادیوں سے ملاقات کے لیے رواں ہفتے پورے ہند بحرالکاہل خطے کا دورہ کریں گے۔
آسٹن بدھ کو بھارت، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا کے 10 روزہ دورے پر پہلے ہی روانہ ہوچکے ہیں۔ بلنکن بھی گزشتہ ہفتے اسرائیل، اردن، ترکی، جنوبی کوریا اور جاپان کے 10 روزہ دورے پر روانہ ہوئے۔
امریکی حکام گزشتہ کئی سال سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چین امریکا کا سب سے بڑا حریف ہے، امریکا اور چین کے درمیان گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران خصوصاً اسپیکر نینسی پیلوسی کے اگست 2022ء میں تائیوان کے دورے کے بعد تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ رواں سال کے آغاز میں امریکی فضا میں چینی جاسوس غبارے کی متنازعہ موجودگی اور حال ہی میں چینی لڑاکا طیارے کا بحیرہ جنوبی چین پر امریکی فضائیہ کے بی 52 بمبار کے قریب آ جانے جیسے واقعات نے دونوں ملکوں میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔