انڈیا میں خواجہ سراؤں کو کام نہ ملنے کی وجہ سے سگنلز پر کھڑے ہو کر مانگنا پڑتا ہے۔ اور اس دوران ان کی سیکیورٹی کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے انڈیا کے خواجہ سراؤں نے ایک نیا اور منفرد طریقہ ڈھونڈا ہے، جو آج کل کے ڈیجیٹل دور میں کافی مفید ہے۔ انڈیا میں اب سگنلز پہ کھڑے خواجہ سرا کو کسی گاڑی کو روک کے کھڑکی پہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ کی گاڑی سگنل سے گزر رہی ہے تو صرف شیشہ نیچے کرکے خواجہ سرا کے فون پہ موجود کیو آر کوڈ اسکین کریں، اسی وقت خواجہ سرا کے بینک اکاؤنٹ میں 10 روپے جمع ہوجائیں گے۔
خواجہ سراؤں کو ڈیجیٹل طریقہ اپنانے کا فائدہ ہوا ہے، کیوں کہ یہ ایک محفوظ طریقہ ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خواجہ سرا ہراساں ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ خواجہ سرا عائشہ شرما نے بتایا کہ جب سے وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوئی ہیں، تب سے مسائل درپیش ہیں کیوں کہ لوگ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں، ان پر ہنستے ہیں اور انہیں عجیب ناموں سے لبِ سڑک پکارا جاتا ہے۔ لیکن جب سے انہوں نے یہ ایپ استمعال کرنا شروع کی ہے، تب سے ان سب لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں۔ سگنلز پر موجود گاڑیوں والے بھی اس طریقے سے خوش ہیں کہ جلد کام نمٹ جاتا ہے۔ اب پیسے اکاؤنٹ میں ڈالنا سب کے لیے بہت آسان ہے۔ عائشہ شرما کیو آر کوڈ سے روز قریباً 4 سو سے 6 سو انڈین روپے کما لیتی ہیں۔
مزید پڑھیں
میرٹھ سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ خواجہ سرا بھکاری لیزا خان اپنی روزانہ کی کمائی کا کم از کم 20 فیصد ڈیجیٹل لین دین کے ذریعے کماتی ہیں۔ اسی طرح اور بہت سے خواجہ سراؤں کی یہی کہانی ہے۔ لیزا خان دسویں پاس ہیں، اور جب انہوں نے اپنے گھر والوں کو اپنی شناخت کے بارے میں پہلی بار بتایا تو ان کو گھر والوں نے ان کو گھر سے نکال دیا۔ پھر کم سنی سے لیزا کو پیسے کمانے کے لیے بھیک مانگنا پڑی، کبھی سڑک پر تو کبھی گلی محلوں میں۔
ایک اور خواجہ سرا، امری کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔ 23 سالہ امری سڑک پر پھول بیچتی ہیں اور ساتھ ساتھ سگنلز پر بھیک مانگنے سے ان کی کمائی بڑھ جاتی ہے۔ ان کے ہر روز 2 سو سے 3 سو روپے بن جاتے ہیں، جن میں سے 70 سے 80 روپے ڈیجیٹل ایپ سے آتے ہیں۔ ہندوستان کے مرکزی بینک نے 2015 میں ہدایت جاری کی تھی کہ تمام بینک تیسری جنس کو اکاؤنٹ کھولنے کی سہولت فراہم کریں۔
لیزا خان کا کوئی باقاعدہ بینک اکاؤنٹ نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا، شناختی کارڈ موجود نہیں، جس کے ذریعے ہندوستان کے کسی بھی بینک میں اکاؤنٹ کھولا جا سکتا ہے۔ لیزا خان تیسری جنس کے طور پر رجسٹر ہونے کے بعد ’آدھار کارڈ‘ حاصل کرسکتی ہے۔ لیزا نے دو بار کوشش کی مگر دفتری مشکلات، لوگوں کا رویے اور دستاویزات کی عدم دستیابی کے گھن چکر نے اسے چکرا کر رکھ دیا، اور وہ اپنے ارادے سے باز آگئی۔ لیزا خان ایک کرائے کے کمرے میں دوسرے ٹرانس جینڈرز کے ساتھ رہتی ہیں، اب وہ اپنے ساتھی کا QR کوڈ استعمال کرتی ہے اور اپنی کمائی سے کمیشن ادا کرتی ہے۔
دہلی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے کہا کہ 2012 کی مردم شماری کے مطابق دہلی میں 5 ہزار افراد کی شناخت خواجہ سراؤں کے طور پر ہونے کے باوجود پچھلے تین سے چار برس میں صرف 76 نئے سرٹیفکیٹ بنائے گئے ہیں جن میں لوگوں کو تیسری جنس کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ جبکہ اس دوران اعداد و شمار میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
ڈیجیٹل ایپ نے عائشہ شرما اور دوسرے ٹرانسجینڈر بھکاریوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ اہم ٹول ہے جو ٹرانس جینڈر اور دیگر اقلیتوں کو محفوظ کھنے میں مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اکثر غیر یقینی اور غیر یقینی حالات میں رہتے ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ وہ محنت سے کمائے گئے اپنے پیسوں کی حفاطت کرسکیں۔