بھارت میں مسلمان دکانداروں نے فلسطینی عوام کی حمایت میں اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم شروع کر رکھی ہے، ان کا خیال ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کے حق میں براہ راست جنگ نہیں لڑ سکتے تو اسرائیل اور امریکا کا معاشی بائیکاٹ کر کے اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
معروف عرب ٹیلی ویژن چینل ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ میں ایک بھارتی مسلمان دکاندار محمد ندیم کو دکھایا گیا ہے، اس نے بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے، محمد ندیم کہتے ہیں کہ ’ہم اسرائیل کے خلاف لڑ نہیں سکتے لیکن اس کا معاشی بائیکاٹ کر سکتے ہیں، گاہک اب اسرائیلی مصنوعات کا متبادل تلاش کر رہے ہیں، اگر ہم بائیکاٹ کریں گے تو اس کا تھوڑا بہت اثر اسرائیل کی معیشت پر ضرور پڑے گا اور پڑ بھی رہا ہے۔‘
محمد ندیم نے اپنی دکان پر اسرائیل کی مصنوعات ’پیپسی اور کوکاکولا‘ کی خریدو فروخت مکمل طور پر بند کر دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب لوگ اسرائیلی مصنوعات کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
ایک دوسرے مسلمان بھارتی شہری اشعر امتیاز کا کہنا ہے کہ ’جب میں نے اسرائیل کی بائیکاٹ مہم کے بارے میں سنا تو میں بھی اس کا حصہ بن گیا اور اسرائیلی مصنوعات کی خریداری چھوڑ دی ہے، اسرائیلی کپڑے جو بچوں میں مقبول تھے اب ہم ان کو دیکھ کرغصے میں آ جاتے ہیں۔‘
These Muslim shopkeepers in India are no longer stocking Israeli and US products in support of the people of Palestine, starting a movement amongst the local community ⤵️ pic.twitter.com/3m0Nf5gE4k
— Al Jazeera English (@AJEnglish) November 13, 2023
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ اسرائیلی حکومت کی مدد کرتی ہے اور اسرائیلی فوج اسے فلسطینی بچوں کے قتل کے لیے استعمال کرتی ہے، ان کا کہنا ہے’ ہم غزہ میں جنگ نہیں چاہتے اور خواہش ہے کہ غزہ میں تشدد بند ہو جائے، ہمیں اسرائیل کے غزہ میں ظلم کے خلاف اس کی مصنوعات کی خریداری بند کرنا ہو گی‘۔
بھارتی خاتون نکہت رحمان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئی دوسرا دوسرا راستہ نہیں ہے کہ ہم اسرائیل اور امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، یہ غزہ کے لوگوں کے لیے اسرائیل کے خلاف ہماری معمولی سی مزاحمت ہے۔‘
ایک دکاندار شرجیل عثمانی کا کہنا ہے کہ ’یہاں بھارت میں احتجاج کرنا بھی ایک جنگ جیسا ہے، فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں پر پولیس تشدد کرتی ہے، جیلوں میں ڈالتی ہے اور انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا تو 4 طلبا کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔‘
دوسری جانب حالیہ برسوں میں بھارت کی حکومتی انتہا پسند جماعت بی جے پی کی جانب سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔