باچا خان، سیاسی مزاحمت کا نایاب خزانہ۔۔!

بدھ 15 نومبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

6فروری 1890 کو پیدا ہونے والا باچا خان پاکستان کی ریاستی تاریخ اور بیانیے میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکا جو مقام اس کو پوری دنیا میں حاصل ہے۔ دوستوں کو لفظ ‘نایاب خزانے’ کی بات شاید عجیب لگے اور یہ بھی کہ ریاستی تاریخ اور بیانیے سے کیا مراد ہے۔

تو جناب بد قسمتی سے پاکستان میں ہر چیز غلط پڑھائی گئی ہے۔ یہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتایا جاتا رہا ہے۔ اب جب باچا خان کی زندگی کے تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی ہے تو مجھے ان دنوں پر افسوس آتا ہے جب باچا خان کا نام سنتے ہی دماغ میں سو قسم کے سوالات اٹھتے رہتے تھے کیونکہ ہم نے باچا خان کے بارے میں بس یہی سنا تھا کہ یہ سرخے کانگریسی مسلمان بھی نہیں ہوا کرتے اور غیر ملکی ایجنٹ و ملک دشمن تو لازم ہوا کرتے ہیں۔ جب بھی باچا خان کی بات کرتے ہیں تو اپنی سابقہ سوچ اور اس پر پشیمانی کا ذکر بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اب بھی کئی لوگ وہی سوچتے ہیں جو ہم کئی سال پہلے سوچتے رہے تھے۔

امریکہ میں موجود پی ایچ ڈی سکالر ڈاکٹر محمد زبیر محسود باچا خان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں اور اپنے فیس بک پیج پر اس حوالے سے ان کی کئی معلوماتی تحریروں میں سے جس چیز کی مجھے تلاش تھی وہ یہ ملی کہ باچا خان کٹر پشتون قوم پرست نہیں تھا بلکہ انہوں نے ایک ایسے شدت پسند نظریات اور خیالات کے حامل پشتون معاشرے کو ہندوستانی نیشنلزم اور عدم تشدد کی طرف موڑنے کی کوشش کی جو کہ ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر زبیر محسود کی تحریروں میں گہرائی، دلائل اور تاریخی واقعات موجود ہیں جن کو تاریخ کے آئینے میں آسانی کے ساتھ جھٹلایا نہیں جا سکتا اور کئی حوالے ایسے بھی موجود ہیں جس سے باچا خان کے قول و فعل پر بھی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ باچا خان جیسی بڑی شخصیات کچھ پانے کے لیے کچھ کھونے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں اور جن حوالوں کا ذکر کیا ہے وہاں باچا خان نے بھی ایک بڑے مقصد کو ذہن میں رکھا ہے۔

اس حوالے سے باچا خان کی ذات ان کی تقریروں اور ان کی سوچ اور اپروچ کو جاننے کی کوشش کی تو یہی نتیجہ اخذ کیا کہ باچا خان بنیادی طور پر ایک ایسی ریاست کی تشکیل کے خواہاں تھے جو انگریزوں کو ہمیشہ کے لیے روکنے کا سبب بنے اور جب آپ ان کی ذاتی زندگی پر مبنی کتاب ‘زمه ژوند او جدوجهد’ پڑھیں گے تو آپ اس بات کو بطورِ خاص نوٹ کریں گے کہ وہ اپنی قوم کو اسی طرف راغب کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ باچا خان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اس حوالے سے پرکھیں گے تو اندازہ ہوتا ہے کہ باچا خان کی نظر میں انگریزوں سے مکمل خلاصی ایک اور طاقتور ہندوستان کی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے۔ باچا خان کی انگریزوں کے حوالے سے سوچ بالکل صاف تھی اور وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ انگریز دوسرے قوموں پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں اور یہ مظالم انگریز اپنے شعوری سوچ کے آئینے میں مکمل جائز تصور کرتے ہیں۔ باچا خان سمجھتا تھا کہ کچھ لوگ انگریزوں کے مظالم اور ان کے غیر اخلاقی قبضوں کو اخلاقیات کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس حوالے سے باچا خان نے انگریزوں کے تمام غیر انسانی مظالم سے پردہ اٹھانے کی بھی کوشش کی ہے۔

پاکستان میں عمومی تاثر یہ ہے کہ باچا خان مسلم لیگ یا قائد اعظم محمد علی جناح کے مخالف تھے جبکہ ایسا بالکل نہیں تھا۔ باچا خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
کلکتہ میں خلافت کمیٹی کے سبجیکٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک لیڈر سٹیج پر قائد اعظم محمد علی جناح پر نکتہ چینی کررہے تھے جس نے قائد اعظم کو غصہ دلا دیا اور وہیں پر ردعمل دینا شروع کر دیا جس کے جواب میں سٹیج پر کچھ لوگ قائد اعظم کی طرف بڑھنے لگے مگر سٹیج پر ہم پٹھان کافی تعداد میں بیٹھے تھے اور معاملے کو رفع دفع کرا دیا۔ اجلاس کی کاروائی سے ہمیں سخت مایوسی کا سامنا ہوا پھر دوسری طرف کانگریس کے پروگرام میں چلے گئے اور ان دنوں مسلم لیگ نے ہندوؤں کے حوالے سے کافی سخت رویہ اپنا رکھا تھا جبکہ گاندھی سٹیج پر بات تو کر رہے تھے لیکن مسلم لیگ پر کوئی تنقید نہیں کر رہے تھے۔ لوگوں کی بھیڑ میں ایک نوجوان جسے لوگ راجہ کہتے تھے بار بار اٹھ کر گاندھی کے ساتھ نامناسب رویہ اپناتے تھے لیکن گاندھی مسکرا کر اس کو نظر انداز کر دیتے۔ یہ سب دیکھ کر ہمارے دلوں میں ایک جذبہ پیدا ہوا اور محمد علی جناح کے پاس گئے اور ہم نے اپنی بات اس طرح شروع کی کہ محمد علی صاحب آپ ہم مسلمانوں کے لیڈر ہیں اور ہم آپ کی عزت اور توقیر چاہتے ہیں اور پھر گاندھی کے ساتھ پیش آنے والا واقع ان کو بتایا اور یہ بھی کہا کہ یہ باتیں ہم آپ کو اس لئے بتا رہے ہیں کہ آپ ہمارے رہنما ہیں اور ہم آپ کی برتری کے خواہاں ہیں، اس لیے اگر آپ اپنے اندر صبر اور برداشت بڑھانے کی کوشش کریں گے تو اس کے بہت اچھے اثرات پڑیں گے لیکن ہمیں نہایت نامناسب جواب ملا جس کے بعد ہم اس قدر مایوس ہوئے کہ پھر کبھی خلافت کے جلسوں میں شریک نہیں ہوئے۔

کہنے کا مقصد یہ کہ یہاں ملک میں ایک بیانیہ بنایا گیا ہے کہ باچا خان مسلم لیگ کے رہنماؤں سے دوری اختیار کر کے ہندو رہنماؤں کی قربت پسند کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی باچا خان پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگتے رہے اور باچا خان اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو میرے بارے میں کہا گیا کہ میں ہندوستان چلا گیا ہوں اور پاکستانی حکام میرے پاس آئے اور پوچھا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ ہندوستان جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اور آپ لوگ میرے بھائی ہیں، میں تو آپ کی طرف امید کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں لیکن اگر آپ ہمارے ساتھ برادرانہ سلوک نہیں کریں گے اور پشتونوں کو ان کا آئینی و جمہوری حق نہیں دیں گے تو میں کب تک آپ کا منہ دیکھتا رہوں گا؟ میں ہندوستان نہیں جاتا لیکن آپ زبردستی مجھے ہندوستان بھیجتے ہیں، اگر آپ ہمیں ہمارا حق دیتے ہیں تو میں ہندوستان کیوں جاؤں گا؟

پاکستان میں تاریخ کو بھی پہئے لگائے جاتے ہیں اور شخصیات کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ پاکستان بننے کے بعد باچا خان کی سیاسی تاریخ کنفیوزڈ ضرور نظر آتی ہے لیکن ذاتی طور پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد بھی انگریز نے باچا خان کو معاف نہیں کیا اور باچا خان، جو برصغیر کی آزادی کا حقیقی ہیرو تھا، کو مسلمانوں کے سامنے بطور ولن پیش کیا گیا اور بدقسمتی سے اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے اس حوالے سے انگریزوں کی سہولت کاری کی۔

باچا خان بیس جنوری 1988 میں وفات پا گئے لیکن ایک تاریخ چھوڑ گئے۔ وہ پہلے غیر ہندوستانی شخص ہیں جن کو 1987 میں بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس سے پہلے 1969 میں جواہر لعل نہرو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ جواہر لعل نہرو ایوارڈ کی تاریخ کے حوالے سے کچھ اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ایوارڈ 1967 کو دیا گیا تھا لیکن میری کچھ سینئر قوم پرستوں سے بات ہوئی جو سمجھتے ہیں کہ باچا خان 1967 کے بجائے 1969 میں ہندوستان گئے تھے اور تب یہ ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ اس حوالے سے سینئر صحافی شاہین بونیری 2011 کی ایک تحقیقاتی سٹوری میں بھی ایوارڈ کی تاریخ 1969 لکھتے ہیں جبکہ Wikipedia پر تاریخ 1967 درج ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp