ذکا اشرف صاحب! اداکاری نہیں آتی تو کوشش کیوں کرتے ہیں؟

جمعرات 16 نومبر 2023
author image

فہیم پٹیل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہر بار کی طرح اس بار بھی ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہوگئیں۔ تبدیلی تو ہونی ہی تھی مگر اتنے بڑے پیمانے پر اور اس بے ہنگم طریقے سے، اس بارے میں شاید ہی کسی نے سوچا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا جو بھی سربراہ ہوتا ہے اسے لگتا ہے کہ جب تک وہ کپتان نہ بدل لے، کوچنگ اسٹاف نہ بدل لے، چیف سلیکٹر اور دیگر ذمہ دار کو فارغ نہ کردے وہ بورڈ کا سربراہ بنا ہی نہیں، بورڈ کے ہر سربراہ کو اپنی طاقت کا اظہار کرنے کا شوق ہے اور ذکا اشرف صاحب نے بھی بالکل ایسا ہی کیا۔

اس سے بھلا کس کو انکار ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ میں کارکردگی خراب تھی، بلکہ بہت خراب تھی اور صرف ورلڈ کپ میں ہی نہیں بلکہ ایشیا کپ بھی ہمارا اچھا نہیں گزرا۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ جس ٹیم کا انتخاب کیا گیا تھا اس کے بعد کم و بیش ایسی ہی کارکردگی سامنے آنی تھی مگر اچھی بات یہ تھی کہ کپتان بابر اعظم کو اپنی ٹیم پر بھروسہ تھا اور بورڈ کا اچھا عمل یہ تھا کہ اس نے کپتان کے بھروسے پر اعتماد کیا، مگر ہماری ٹیم نے جس خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے بھی خراب حکمت عملی ہمارے بورڈ نے دکھائی۔

پہلے مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ذکا اشرف صاحب کو اداکاری کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اسے سیکھ لیجیے، کیونکہ گزشتہ روز جو بھونڈی اداکاری انہوں نے کی ہے اس نے ان کا مذاق ہی بنوایا ہے۔

اب دیکھیے کہ پہلے وہ بابر اعظم کو بلواتے ہیں، ملاقات ہوتی ہے، پھر یہ خبریں آتی ہیں کہ ملاقات اچھے ماحول میں ہوئی اور کہا گیا کہ بورڈ چیئرمین نے کپتان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد بابر اعظم سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر دیتے ہیں کہ وہ تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے دستبردار ہوتے ہیں۔ بس اس بیان کے آنے کی دیر تھی کہ بورڈ کی جانب سے ایک کے بعد ایک خبر آنی شروع ہوگئی۔

سب سے پہلے کوچنگ اسٹاف سے متعلق خبر آئی کہ انہیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ذمہ داریاں انجام دینے کا کہا گیا ہے اور کانٹریکٹ ختم ہونے تک وہ وہیں کام کریں گے، اس کے بعد ٹیسٹ اور ٹی20 کپتان کی تبدیلی کی خبر ہی نہیں بلکہ ویڈیو بیان بھی آجاتے ہیں، پھر محمد حفیظ کی بطور کرکٹ بورڈ ڈائرکٹر تعیناتی کی خبر آتی ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ چیف سلیکٹر اب سے وہاب ریاض ہوں گے۔

محض 2 سے 3 گھنٹے میں یہ ساری تبدیلیاں ہوگئیں اور آج کے زمانے میں کون اتنا بھولا ہے جو یہ یقین کرلے کہ ذکا اشرف نے یہ ساری تیاریاں انہی 2 سے 3 گھنٹے میں کی تھیں۔ بھائی جب آپ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آپ بابر اعظم کو مزید کپتان نہیں رہنے دینا چاہتے تو کہہ دیجیے کہ آپ نے بابر سے یہ کہا کہ آپ دستبردار ہوجائیے کیونکہ بورڈ نے نئے کپتان کا فیصلہ کرلیا ہے، یہ اداکاری اور وہ بھی اتنی خراب اداکاری کرنے کا مشورہ آپ کو کس نے دیا تھا؟

چلیے اس کو چھوڑیے، کیونکہ یہ حرکتیں تو ہر ورلڈ کپ کے بعد ہمارے ملک میں ہوتی ہیں۔ باقی ٹیمیں ورلڈ کپ جیتنے کی تیاری میں 4 سال تیاری کرتی ہیں اور ہم ان 4 سال اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ کب ہماری ٹیم شکست سے دوچار ہو اور نیا سیٹ لے آیا جائے۔

2003 کے ورلڈ کپ کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جب ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم میگا ایونٹ کے پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوگئے اور اس کے بعد آپریشن کلین اپ کا آغاز ہوا۔ راشد لطیف اور محمد یوسف کو کپتان اور نائب کپتان بنایا گیا اور ورلڈ کپ کے بعد شارجہ میں جو سیریز کھیلی گئی اس میں ورلڈ کپ اسکواڈ کے 8 بڑے ناموں کو ڈراپ کردیا گیا تھا جن میں وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، انضمام الحق، ثقلین مشتاق، شعیب اختر، شاہد آفریدی اور اظہر محمود شامل تھے۔ پھر 2007 کا دردناک ورلڈ کپ بھی ہماری تاریخ کا ہی حصہ ہے۔

بابر اعظم کی کپتانی کا میں خود بھی ناقد ہوں، وہ اچھے کھلاڑی تو ہوسکتے ہیں مگر کپتانی ان کے بس کا روگ نہیں اور اس پر میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ لیکن چند میڈیا ادارے اور صحافی جس طرح اپنی مرضی کا کپتان لانے کے لیے لابنگ کرتے ہیں اس کی مثال شاید ہی کسی اور ملک میں ملتی ہو۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے 18 اکتوبر 2019 کا وہ دن جب سرفراز احمد کو سری لنکا کے خلاف 0-3 سے سیریز ہارنے پر تمام فارمیٹ کی کپتانی سے فارغ کردیا گیا تھا، اس وقت بھی ایک طبقے کی جانب سے خوشیاں منائی گئی تھیں اور ایک طبقے نے اسے ناانصافی قرار دیا گیا تھا۔

آج بھی بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس وقت بھی ٹیسٹ کرکٹ میں ایسے فرد کو کپتان بنادیا گیا تھا جس کے بارے میں یہ رائے عام تھی کہ وہ کپتانی کے لیے کوئی موزوں انتخاب نہیں، میں یہاں اظہر علی کی بات کررہا ہوں اور اب بھی شان مسعود کے بارے میں یہی خیال عام ہے کہ بورڈ کی جانب سے شاید جلدی میں کوئی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اظہر علی کی تو اس وقت کارکردگی بھی اچھی تھی اور 43 کی اوسط سے انہوں نے ساڑھے 5 ہزار رنز بنائے ہوئے تھے جبکہ شان مسعود نے پاکستان کی جانب سے محض 30 میچ کھیلے ہیں اور ان کی اوسط بھی صرف 28 کی ہے۔

اگر ٹی20 کی کپتانی کی بات کریں تو محمد رضوان اور شاداب خان کے بجائے شاہین شاہ آفریدی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کا نام آتے ہی بہت سارے حلقے اس انتخاب کو شاہد آفریدی سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ کہ اس میں سابق کپتان کا بڑا کردار ہے کیونکہ وہ کئی مرتبہ بورڈ چیئرمین ذکا اشرف سے ملاقات کرچکے ہیں، لیکن دوسری طرف شاہد آفریدی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ شاہین آفریدی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اپنی کپتانی کے جوہر دکھا چکے ہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ شاہین اتنی جلدی ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری اٹھائیں۔

بہرحال ان کا کردار ہو یا نہیں، بات سیدھی اور صاف یہ ہے کہ ہم کئی ورلڈ کپ کے بعد آپریشن کلین اپ کرچکے ہیں مگر اس کا فائدہ اب تک نظر نہیں آسکا ہے، اس بار بھی دیکھ لیتے ہیں کہ چند دنوں کے مہمان بورڈ چیئرمین کا یہ فیصلہ پاکستان کرکٹ کے لیے کتنا اچھا یا کتنا بُرا ثابت ہوتا ہے۔

آخر میں بس یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اب پاکستان کے پاس یہی کھیل ہے جس کے ذریعے ملک کا نام روشن ہونے کا امکان ہے، باقی دیگر کھیلوں میں جو ہماری صورتحال ہے وہ کسی سے دھکی چھپی نہیں ہے۔ ٹی20 ورلڈ کپ اب محض 8 ماہ کی دُوری پر ہے، امید کرتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کی کارکردگی میں بہتری آئے کیونکہ اگر ہم وہاں بھی ناکام رہے تو ناجانے اس وقت بورڈ کے چیئرمین اپنی طاقت کے اظہار کے لیے ناجانے کیا فیصلہ کرلیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp